شرمین عبید چنوئے پاکستان کی پہلی فلم ساز ہیں جنہیں آسکر ایوارڈ کی نامزدگی حاصل ہوئی ہے۔ ان کی فلم ’’سیوونگ فیس‘‘ کو ’’مختصر دورانیے اور دستاویزی فلم‘‘ کے زمرے میں ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شرمین نے کہا کہ ان کی دستاویزی فلم کو ملنے والی نامزدگی نہ صرف ان کے لیے ذاتی طور پر بلکہ پاکستان کے لیے بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔ ’’ جب پتا چلا کہ آسکر کے لیے نامزد ہوئے ہیں تو بہت خوشی ہوئی پوری ٹیم کو کیونکہ فلم کوئی اکیلا تو بناتا نہیں مگر سب سے زیادہ یہ فخر محسوس ہوا کہ آپ کہیں بھی ہوں کہیں بھی پلے بڑھے ہوں کہیں پر بھی کام کر رہے ہیں مگر آپ اچھا کوالٹی کام آگے بڑھائیں گے تو لوگ سراہیں گے اور بین الاقوامی سطح پر آپکو ایوارڈز ملیں گے۔‘‘
فلم کا مختصر خاکہ اور اسے بنانے کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’ ڈینیئل ینگ جو میرے ساتھی ڈائریکٹر ہیں یہ ان کا آئیڈیا تھا کہ ایک پاکستانی نژاد برطانوی ڈاکٹر محمد جواد ہیں، ان کی زندگی جب وہ برطانیہ سے پاکستان آتے ہیں اور تیزاب والی جو خواتین ہیں ان کا علاج کرتے ہیں تو اس کی اسٹوری کو عکس بند کیا جائے۔ میں نے یہ پراجیکٹ دیکھ کر بولا کہ یہ بہت اہم ہے۔ ایک عورت پر ایک دفعہ تیزاب پھینک دیں تو وہ ساری عمر اس کو بھگتتی ہے۔ ڈیڑھ سال لگائے ہیں ہم نے اس فلم پر ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ آسکر تک پہنچے گی لیکن امید تھی کہ اگر ہم اچھا کام کریں گے تو لوگ بین الاقوامی سطح پر سراہیں گے۔‘‘
شرمین کا کہنا تھا کہ خواتین پر تشدد بالخصوص تیزاب سے حملے کا جو رجحان معاشرے میں پایا جاتا ہے اس کی حوصلہ شکنی کے لیے ضروری ہے کہ قانون سازی کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر اس کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔
’’جن خواتین پر تیزاب پھینکا جاتا ہے تو ان کے مرد سمجھتے ہیں کہ انھوں نے جو کیا وہ صحیح کیا اور یہ مائنڈ سیٹ بن جاتا ہے خصوصاً سرائیکی بیلٹ میں بہت زیادہ واقعات ہوتے ہیں تو یہ بہت تکلیف ہوئی کہ ایک ہی ملک کے اندر ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عورتوں پر تشدد کرنا ان کا حق ہے۔‘‘
’سیوونگ فیس‘ میں دیے جانے والے پیغام سے متعلق شرمین عبید چنوئے کہتی ہیں’’فلم کا میسج بہت سادہ ہے کہ اگر خواتین ایک دوسرے کی مدد کریں گی تو کوئی بھی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ جو متاثرہ خواتین ہیں انھوں نے دوسری خواتین کی مدد لی، این جی اوز ، وکلا اور پارلیمنٹیرینز کی اور ان ہی کی مدد سے انھوں نے پارلیمنٹ کے اندر درخواست بھی دی اور اس کے تحت ایک بل پاس ہوا، ایک وکیل نے اس کا مقدمہ بھی لڑا، ان میں سے ایک خاتون کا خاوند اب جیل میں ہے ۔ اگر ہم چاہیں تو اپنے پرابلمز خود سالوو کرسکتے ہیں۔‘‘
شرمین متعدد دستاویزی فلمیں (ڈاکیومنٹریز) بنا چکی ہیں اور 2010ء میں ان کی فلم ’’پاکستان: چلڈرن آف دی طالبان‘‘ ایمی ایوارڈ حاصل کرچکی ہے۔
عالمی سطح پر فلموں کے سب سے متعبر سمجھے جانے والے آسکر ایوارڈز کی تقریب 26 فروری کو ہالی ووڈ میں منعقد ہوگی جبکہ شرمین کی فلم سیوونگ فیس رواں سال مارچ میں منظر عام پر آنے کی توقع ہے۔