پاکستان میں حزب مخالف کے ایک بڑی جماعت تحریک انصاف کے راہنما عمران خان نے آئندہ عام انتخاب سے پہلے انتخابی اصلاحات کو وضع نا کرنے کی صورت میں ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔
اگرچہ ملک میں آئندہ انتخابات 2018 میں ہونے ہیں تاہم ابھی سے ہی سیاسی ہلچل شروع ہو چکی ہیں جس میں ناصرف حزب اختلاف کی جماعتوں کے راہنماؤں بشمول پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری سرگرم ںظر آتے ہیں بلکہ حالیہ عرصے میں وزیر اعظم نواز شریف بھی کئی عوامی جلسے کر چکے ہیں۔
سیاسی مبصرین عمران خان کی طرف سے احتجاجی تحریک چلانے کے اعلان کو بھی ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔
تاہم تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عارف علوی نے کہنا ہے کہ ان کی جماعت کا موقف ہے کہ انتخابی عمل کو صاف و شفاف بنانے کے لئے انتخابی اصلاحات کو عملی شکل دینا ضروری ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ۔ " الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور بائیومیٹرک سٹم کے ذریعے ووٹروں کی شناخت کرنے کا نظام کو متعارف کروانے پر ایک ڈیڑھ سال پہلے اتقاق کر لیا تھا ۔۔۔ جو جعلی ووٹنگ کی روک تھام کرنے کے کا اہم اقدام ہوگا اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور حکومت نے دیر کر دی ہے اور اس بات کا امکان کم ہو گیا ہے کہ اس پر بروقت عمل ہو سکتا ہے۔ تو اس معاملے ہم احتجاج کرنے جارہے ہیں۔"
لیکن حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی رانا افضل نے کہا کہ پارلیمان کی انتخابی اصلاحات سے متعلق کمیٹی اپنی سفارشات کو حتمی شکل دے چکی ہے جس میں ووٹروں کی شناخت کے لئے بائیومیٹر ک سسٹم کو متعارف کروانے کی تجویز بھی شامل ہے۔
" الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے لئے ٹینڈر ہو گئے ہیں اور اس حوالے سیمپل مشینیں بھی پہنچ رہی ہیں اور ان کو آزمائشی طور استعمال بھی کیا جائے گا اور اگر آج کل کوئی ضمنی انتخاب ہوتا ہے تو ان میں بھی آزمائشی طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔اور بعد ازاں انہیں آئندہ انتخاب کے لئے حتمی طور استعمال کیا جاسکتا ہے۔"
دوسری طرف سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابی اصلاحات کو پارلیمان کے ہی ذریعے وضع کیا جاسکتا ہے اس لئے تحریک انصاف کو پارلیمان کے اندر ہی اپنی آواز بلند کرنا چاہیے۔
سیاسی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوے کہا کہ تحریک انصاف کو اگر مجوزہ انتخابی اصلاحات سے متعلق اگر کوئی تحفظات تھے تو انہیں اس وقت بات کرنی چاہیے تھی جب یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں زیر غور تھا۔
" اب ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس معاملے کو اسمبلی کے اندر اٹھائیں اور جنتی جلدی ہو پارلیمان میں اس پر بحث ہو تاکہ ان کو حتمی شکل میں منظور کر لیا جائے ۔ سڑکوں پر احتجاج کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پچھلے دو سال سے یہ معاملہ پارلیمان کے اندر زیر غور تھا اس وقت اس پر بات کرنی چاہیے تھی۔"
2013ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں اور بے ضابطگیوں کے شکایات کے بعد وزیراعظم نے جون 2014 میں اسپیکر قومی اسمبلی سے کہا تھا کہ وہ انتخابی اصلاحات کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنائیں۔ حکومت عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کے لئے متفقہ سفارشات مرتب کر لی گئی ہیں اب انہیں پارلیمان سے منظور ہونا باقی ہے۔