وزیراعظم منصب چھوڑ دیں: حزبِ اختلاف کی جماعتوں کا مطالبہ

اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے بعد خورشید شاہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم نواز شریف یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر تحقیقات میں اُن کے خلاف کچھ کہا گیا تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔

پاکستان میں حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں ایک بار پھر وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ کے چیمبر میں جمعے کو ہونے والے اجلاس میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔

اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے بعد خورشید شاہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم نواز شریف یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر تحقیقات میں اُن کے خلاف کچھ کہا گیا تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔

’’ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے وزیراعظم، ملک کے سربراہان کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔۔۔ یقیناً میاں صاحب نے قوم سے وعدہ کیا لیکن اب اُنھوں نے اعلان کر دیا کہ میں مستعفی نہیں ہوں گا۔ مگر قوم آج اُن سے استعفی مانگ رہی ہے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ تمام اپوزیشن سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ نظام چلنا چاہیے اور اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے پر ہی انتخابات ہونے چاہئیں۔

شاہ محمود قریشی

اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حزبِ مخالف کی تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ سپریم کورٹ نے جو بھی فیصلہ کیا، اُس کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا۔

آفتاب شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کی، لیکن اُن کا موقف تھا کہ وہ وزیراعظم کے استعفے سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی کریں گے۔

دوسری جانب حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس وزیراعظم نواز شریف کی زیرِ قیادت اسلام آباد میں ہوا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ وہ استعفی نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ عدالت ان کے تحفظات کو سنے گی۔

وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ اُن کے راستے میں مشکلات کھڑی کی جاتی رہی ہیں اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اُنھیں نااہل قرار دے کر انتخابات سے باہر بھی کیا گیا لیکن ان کے بقول انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔

وزیراعظم نواز شریف (فائل فوٹو)

وزیرِاعظم نے ایک مرتبہ پھر یہ موقف اختیار کیا کہ نہ صرف مشترکہ تحقیقاتی ٹیم متنازع تھی بلکہ اس کی رپورٹ بھی ’’ہمارے مخالفین کے بے بنیاد الزامات کا مجموعہ ہے۔۔۔ اس رپورٹ میں ہمارے موقف اور ثبوتوں کو جھٹلانے کے لیے کوئی ٹھوس دستاویز پیش نہیں کی گئی۔‘‘

’جے آئی ٹی‘ نے اپنی رپورٹ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں پیش کی تھی اور اب اس پر بحث کا آغاز 17 جولائی سے ہو گا جس میں فریقین رپورٹ کی بنیاد پر اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل دیں گے۔