وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دوسری مرتبہ کہا ہے کہ قوم کو جلد بڑی خوشخبری مل سکتی ہے کہ کراچی کے نزدیک سمندر کے نیچے سے تیل اور گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہونے کی امید ہے۔ ان کے بقول یہ خوشخبری آئندہ تین ہفتوں میں سامنے آ سکتی ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان کے تمام معاشی مسائل حل ہو جائیں گے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔
عمران خان کے اس بیان کو سوشل میڈیا کے علاوہ بھارت کے اخبارات اور ایم ایس این جیسے آن لائن جوائنٹس نے بھی شہہ سرخیوں میں کوریج دی ہے۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں اس بارے میں ماہرین سے گفتگو کی گئی کہ تیل اور گیس کی تلاش معمول کی مشق سے نکل کر کب امید بنتی ہے؟ زیر زمین کیا شہادتیں سائنسی اعتبار سے اشارے دیتی ہیں کہ یہاں تیل کا گیس کا خزانہ موجود ہے؟ ڈرلنگ کمپنیاں تیل کی تلاش کے لیے کن عوامل کے پیش نظر دسیوں لاکھوں ڈالر خرچ کر کے کھدائی پر آمادہ ہوتی ہیں؟
ڈاکٹر گلفراز احمد پاکستان میں وزارت پٹرولیم کے سیکرٹری رہ چکے ہیں اور اس وقت بھی ایک نجی آئل اینڈ گیس کمپنی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان اگر دوسری مرتبہ اس بات کو دہرا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں وزارت پٹرولیم کی جانب سے، جو تیل اور گیس کی تلاش کو ریگولیٹ کرتی ہے، معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس وقت کراچی کے نزدیک سمندر کیکڑا ۔ون سے موسوم علاقے میں چار کمپنیاں ڈرلنگ (کھدائی) میں مصروف ہیں۔ دو کمپنیاں پاکستانی ہیں، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل جبکہ دو غیر ملکی کمپنیوں میں اٹلی کی ای این آئی اور ایگزون موبائل شامل ہیں۔
ڈاکٹر گلفراز کہتے ہیں کہ ڈرلنگ بہت مہنگی مشق ہے۔ کیکڑا ون میں ڈرلنگ کی لاگت 80 ملین ڈالر آ رہی ہے جو گیس کمپنیاں خود خرچ کریں گی اور چاروں کمپنیاں برابر سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ان کے بقول گیس کمپنیاں اس وقت تک ڈرلنگ شروع نہیں کرتیں، جب تک کہ انہیں ابتدائی سائنسی تجزیے مثبت اشارے نہ دے رہے ہوں۔
ڈاکٹر گلفراز کی معلومات کے مطابق تلاش کے دوران ’’پریشر کِک‘‘ ہوئی ہے اور اس دوران گیس کے شوز بھی آتے رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کیکڑا۔ون کے علاقے میں سورس راک ہے جو بہت گہری ہے۔ اس سے گیس پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ بہت بڑا سائزایبل سٹرکچر ہے، اگر دریافت کامیاب رہی تو بہت بڑی دریافت ہو گی۔ تاہم وہ یہ کہتے ہیں کہ ذخیرہ کے جس قدر بھی قریب تک کھدائی کر لیں، حتمی کامیابی اسی وقت ہوتی ہے جب ذخیرے کے اندر ڈرلنگ ہو، اس کے پاس پہنچنا زیادہ معنی نہیں رکھتا۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ غالب امکان یہی ہے کہ یہ ذخیرہ محفوظ ہے، اگر اس میں لیکج ہوتی تو ابتدائی جائزوں میں پتا چل جاتا اور کمپنیاں ڈرلنگ تک نہ جاتیں۔
مسعود ابدالی امریکہ میں مقیم تجزیہ کار اور ریسرچر ہیں، وہ پاکستان، افغانستان اور ترکمانستان میں ویدرفورڈ آئل کمپنی کے ایریا منیجر رہے ہیں اور تیل کی تلاش کے عمل سے واقف ہیں۔
مسٹر ابدالی پاکستان کے وزیراعظم کے جانب سے اس بیان کو غیر مناسب اور قبل از وقت خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جس علاقے میں تیل اور گیس کے ذخیرے کے برآمد ہونے کی بات کی جا رہی ہے، وہاں کامیابی کے امکانات بارہ فیصد سے زیادہ نہیں (البتہ ڈاکٹر گلفراز کہتے ہیں کہ گیس کمپنیاں جب تک کم از کم 20 فیصد امکانات نہ دیکھتی ہوں تو ڈرلنگ شروع نہیں کرتیں)۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اور پھر اسی پروگرام کے پس منظر میں اپنے فیس بک بلاگ میں مسعود ابدالی کہتے ہیں۔
’’ہمارے وزیر اعظم صاحب پاکستانیوں کی خوشی اور خوشحالی کے لئے بے چین ہیں اور اسی بنا پر وہ سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے لئے کھودے جانے والے کنویں کیکڑا نمبر 1 کے بارے میں پرجوش و پرامید نظر آ رہے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں جلد بازی ان کے منصب کے شایانِ شان نہیں۔ پرامید ہونا تو اچھی بات ہے لیکن کھدائی کی تکمیل سے پہلے ہی ایشیا میں تیل و گیس کے سب سے بڑے ذخیرے کے دریافت کی خوش خبری سنا دینا ہمارے خیال میں کسی طور مناسب نہیں۔ اس کنویں پر کامیابی کی امید صرف 12 فیصد ہے اور اس پس منظر میں قبل از وقت کامیابی کے شادیانے بجا دینا اس اعتبار سے انتہائی خطرناک ہے کہ اگر خدا نخواستہ متوقع نتائج حاصل نہ ہو سکے تو جہاں قوم کے حوصلے پست ہوں گے، وہیں وزیراعظم پر سے قوم کا اعتماد ختم ہوجائے گا۔ جو احباب اس صنعت سے وابستہ نہیں ان کے لئے عرض ہے کہ تیل کے ذخیرے کی دریافت کے لئے چند باتیں اہم ہیں۔
اس جگہ مسام دار چٹانیں جیسے چونے کا پتھر یا ریت ضروری ہیں، جن میں تیل یا گیس جمع رہے۔ تیل گیس اور پانی زیر زمین چٹانوں کے مسامات میں اسی طرح جمع رہتے ہیں جیسے اسفنج میں پانی۔ یہ مسام دار چٹانیں ہی کیکڑا کا ہدف ہے۔
دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ اس مسام دار چٹان کے اوپر ایک غیر مسام دار چٹان موجود ہو جو اس تیل و گیس کے ذخیرےکو محفوظ رکھ سکے۔ اگر ذخیرے کے اوپر چٹانوں کی کوئی سخت پرت موجود نہ ہو یہ تیل و گیس اوپر اور دائیں بائیں لیک ہو جائے گی۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس جگہ کی ساخت و بناوٹ ایسی ہو کہ تیل و گیس ہر طرف سے سمٹ کر ذخیرے کی طرف آ سکے۔
ان تینوں نکات کا حتمی تعین اسی صورت ہو سکتا ہے جب ہدف تک کامیابی سے کھدائی مکمل کر لی جائے اور محض کھدائی کافی نہیں بلکہ مسامات کے تجزئے و پیمائش، ذخیرے میں موجود تیل و گیس کی مقدار کے تعین، اس کے دباؤ اور غیر مسام دار چٹان کے تجزئے کے لئے تفصیلی پیمائش و آزمائش کے بعد ہی تیقن کے ساتھ کچھ کہا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے ہونے والے مشاہدات و نشانات سے کچھ اندازہ تو ہوتا ہے لیکن اس کی بنیاد پر امید قائم کر لینا مناسب نہیں۔
اس ضمن میں آج کل پریشر ککس کا بڑا شور ہے اور لوگوں کا خیال ہے کہ یہ زیر زمین تیل و گیس کے غیر معمولی دباؤ کا مظہر ہے۔ پریشر ککس کو سمجھنے کے لئے احباب تصور کریں کہ چار پانچ ہزار میٹر مٹی سے دبی چٹانوں میں مائعات (تیل ، پانی یا گیس) پھنسے ہوتے ہیں اور جب کھدائی کے دوران اوپر کی پرت ادھڑتی ہے تو یہ مائع پوری قوت سے کنویں کے راستے اوپر کی طرف اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے پانی میں مختلف کیمیکل ملا کر نیچے پمپ کیا جاتا ہے جسے کیچڑ یا Mud کہتے ہیں۔کیچڑ کی کمیت بڑھانے کے لئے اس میں وزن دار کیمیکل جیسے بیرائٹ ملایا جاتا ہے جس کی وجہ سے کیچڑ بھاری ہو جاتا ہے۔ کیچڑ سے زیر زمین پڑنے والے دباؤ کو Hydrostatic Pressure کہتے ہیں۔ جبکہ زیر زمین اوپر کی جانب دباؤ Formation Pressure کہلاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ Hydrostatic Pressure زیر زمین دباؤ سے اتنا زیادہ تو ہو کہ چٹانوں میں پھنسا مایع اوپر کی جانب سفر نہ کر سکے لیکن اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ اس کے دباؤ سے زیر زمین چٹانیں ٹوٹ پھوٹ جائیں۔
زیرزمین دباؤ کے تخمینے میں بسا اوقات غلطی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے Pressure Kicks کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیکڑا-1 میں بھی جس Pressure Kicks کی جو بات کی جا رہی ہے وہ اسی قسم کی ایک چیز ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ پانی کی Kick ہو‘‘
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیراعظم کو دی جانے والی بریفنگز میں امید کی کرن دکھائی گئی ہے اور وہ اسے اسی امید کے ساتھ قوم تک پہنچا رہے ہیں۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5