جوہری ٹیکنالوجی کے نقصانات زیادہ فوائد کم

بعض طالب علموں کا کہنا تھا کہ صرف جوہری توانائی کے حصول سے ہی پاکستان کو درپیش توانائی کے سنگین بحران کاجلد سے جلد حل ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ طلبا کی اکثریت کا کہنا تھا کہ مغربی ملکوں میں پاکستان کے جوہری پروگرام کی حفاظت کے بارے میں شکوک شبہات کا اظہار یا پھر ان اثاثوں کے شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کے خدشات اس کی بنیاد ہیں۔

پاکستان میں ایک طویل عرصے سے لوگوں کی اکثریت اس نکتہ نظر کی حامی رہی ہے کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے اور بھارت کے ساتھ چوتھی جنگ کی حوصلہ شکنی کرنے میں ملک کے جوہری ہتھیاروں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے برعکس اظہار خیال کرنے والوں کو کبھی بھارتی تو کبھی امریکی ایجنٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

لیکن ایک سال قبل جاپان میں تباہ کن زلزلے اور سونامی کے باعث فوکوشیما کے جوہری پلانٹ کو پہنچنے والے نقصان نے ملک کو بالخصوص اور خطے کو بالعموم کئی روز تک جس بحرانی کیفیت میں مبتلا کررکھا تھا اس کی وجہ سے دنیا بھر میں توانائی کے حصول کے لیے نسبتا اس سستی ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے مخالفین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔

ذرائع ابلاغ میں اس جوہری بحران کی مفصل کوریج نے پاکستان میں بھی عام لوگوں میں دورجدید کی اس ٹیکنالوجی کے ممکنہ ہولناک خطرات کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کیا ہے اور ماضی کے برعکس لوگوں نے کھلے عام جوہری توانائی کے فروغ پرتنقید اورتحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔

ان ناقدین کا کہنا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میںصف اول کا ملک شمار کیے جانے والے جاپان نے تو فوکو شیما کے نقصان زدہ جوہری پلانٹ کے ریکٹروں کی مرمت پر قابو پا کر خطے کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ لیکن پاکستان میں اگر کوئی جوہری تنصیب ایسی صورت حال سے دوچار ہوتی ہے تو اس پر قابو پانے کے بارے میں یہ ناقدین تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔

اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی کے طالب علموں سے گفتگو کر کے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کی ممکنہ تباہ کاریوں کے بارے میں آگاہی نے ان کی اکثریت کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کےلیے پاکستان کو جوہری ٹیکنالوجی کی بجائے متبادل ذرائع پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے۔

تیمور عباسی

شعبہ برائے ڈیفنس اینڈ اسٹریٹیجک اسٹیڈیز کے طالب علم تیمور عباسی کا کہنا ہے کہ فوکو شیما کے بحران سے قبل دنیا میں 38 جوہری پلانٹس کی تعمیر جاری تھی مگر اب صرف دو پر کام ہو رہا ہے۔

’’36 کی تعمیر روک دی گئی ہے کیوں کہ ایسی تنصیبات کو محفوظ بنانا بہت مشکل کام ہے اس لیے کہ انسان کی ذاتی غلطی کے امکانات تو ہر وقت موجود رہتے ہیں لیکن قدرتی آفات کےعمل دخل سے نقصانات نے اس ٹیکنالوجی کو فروغ دینے والے ممالک کو زیادہ محتاط ہونے پر مجبور کردیا ہے۔‘‘

اُن کا کہنا ہے کہ جن خطوں میں سرحدی کشیدگی پائی جاتی ہے وہاں جوہری ہتھیاروں کی موجودگی روز اول سے ہی ایک مسلسل خطرہ ہے۔

’’میری نظر میں جوہری ٹیکنالوجی کے فوائد کی نسبت اس کے خطرات زیادہ ہیں کیوں کہ اس کی وجہ سے انسانیت کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہے۔ اگر کسی بھی ایک ملک نے اسے استعمال کر لیا تو اس کے ہولناک نتائج ہوں گے۔‘‘

ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنیس اینڈ اسڑیٹیجک اسٹیڈیز کی طالبہ سیما ابراہیم کہتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ نہ صرف مزید ملکوں کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے روکا جائے بلکہ اس وقت بھارت اور پاکستان سمیت جن ملکوں کے پاس بھی یہ صلاحیت ہے انھیں چاہیے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اس سے دستبردار ہوجائیں۔

سیما ابراہیم

’’بھارت اور پاکستان کے پاس تو جوہری ٹیکنالوجی ہرگز نہیں ہونی چاہیے کیونکہ دنوں حریف ملک پہلے بھی جنگیں لڑچکے ہیں اور ان کے درمیان ایک نئی جنگ کا خطرہ ہر وقت موجود ہے۔‘‘

تاہم بعض طالب علموں کا کہنا تھا کہ صرف جوہری توانائی کے حصول سے ہی پاکستان کو درپیش توانائی کے سنگین بحران کاجلد سے جلد حل ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ طلبا کی اکثریت کا کہنا تھا کہ مغربی ملکوں میں پاکستان کے جوہری پروگرام کی حفاظت کے بارے میں شکوک شبہات کا اظہار یا پھر ان اثاثوں کے شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کے خدشات اس کی بنیاد ہیں۔

فائنل ائر کے طالب علم بہلول خان کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ہاتھ یہ ہتھیار لگنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ’’کیوں کہ یہ کوئی بندوق یا پستول وغیر تو ہے نہیں کہ بس لگ گیا کسی کے ہاتھ۔ اس کو استعمال کرنے کے لیے بھی ایک طریقہ کار ہوتا ہے جسے سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔‘‘

طاہر خان

اُن کے ساتھی طالب علم طاہر خان نے بھی اس نکتہ نظر کی حمایت کی۔’’یہ ممکن نہیں ہے، یہ بہت مشکل ہے۔ جو دہشت گرد ہیں وہ پڑھے لکھے سائنسدان تو نہیں اور ان devises کو ہینڈل کرنے کے لیے، ان کو استعمال کرنے کے لیے، ان کو deploy کرنے کے لیے اور لانچ کرنے کے لیے سائنسدانوں کو ضرورت ہوتی ہے، ٹیکنیکل اسٹاف کی ضرورت ہوتی ہے جو دہشت گردوں کے پاس میرا نہیں خیال کہ وہ سکتے ہیں۔‘‘

طلبا کی اکثریت نےحساس جوہری ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے امریکہ کے ناکافی اقدامات پر تنقید کی اور ڈیفنس اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے تیمور عباسی کے بقول کہ اس کے برعکس امریکی پالیسیوں نے ہولناک تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں کو فروغ دیا ہے۔

’’میرے خیال میں ان کی واضح حکمت نہیں رہی اور مختلف ممالک کے حوالے سے ان کی مختلف حکمت عملی رہی ہے۔ ایک عالمی طاقت یا سپر پاور کے طور پر انھوں نے اتنا نہیں کیا جتنا وہ کرسکتے ہیں۔‘‘

جاپان میں 11 مارچ 2011ء کو 9 شدت کے زلزلے اور اس کے بعد سونامی کی لہروں سے ’فوکو شیما ڈائچی‘ جوہری پلانٹ کو بجلی کی سپلائی منقطع ہو گئی تھی اور اس کے ری ایکٹر کو ٹھنڈا کرنے کا نظام متاثر ہوا۔ بعد ازاں یہاں سے تابکار مادے کا اخراج شروع ہوگیا تھا۔

تابکاری کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے فوکوشمیا جوہری پلانٹ کے ارد گرد آباد ہزاروں خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔