پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دکانداروں اور تاجروں کا اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا بدھ کو دوسرے روز بھی جاری ہے۔
دھرنے میں شریک سینکڑوں مظاہرین کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں 2014 میں شروع کیے گئے آپریشن ’ضرب عضب‘ کے دوران میرانشاہ، میرعلی اور دتہ خیل میں ہزاروں دکانیں منہدم ہوئیں اور اُن میں موجود سامان بھی تباہ ہو گیا۔
شمالی وزیرستان تاجر ایسوسی ایشن کے صدر ذہین اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دھرنے میں شریک تمام تاجروں کا مطالبہ ہے کہ اُن کے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔
’’ہمارا حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ تاجروں کے ہونے والے نقصان کا معاوضہ اُنھیں دیا جائے۔۔۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب تک اُن کے مطالبات منظور نہیں کیے جاتے وہ اپنا دھرنا جاری رکھیں گے۔‘‘
ذہین اللہ نے کہا کہ اُنھوں نے شمالی وزیرستان، بنوں اور پشاور میں بھی احتجاجی دھرنے دیئے لیکن اُن کے بقول جب اُن کی آواز کو نہیں سنا گیا تو وہ مجبوراً اسلام آباد آئے ہیں۔
شمالی وزیرستان سے متصل قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محمد جمال الدین کہتے ہیں کہ وہ مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے یہاں آئے ہیں۔
’’یہ پرامن لوگ ہیں اور پرامن طریقے سے اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں، ہم بھی حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔‘‘
مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں امن و امان کی صورت حال میں تو بہتری آئی تاہم اُن کا کہنا ہے کہ وہاں روزگار کے ذرائع ابھی تک بحال نہیں ہوئے۔
حکومت کے عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے دوران تباہ ہونے والی مارکیٹوں کی تعمیر جاری ہے جب کہ اس کے علاوہ انتظامی ڈھانچے کی بحالی کا کام بھی جاری ہے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ تاحال حکومت کے کسی عہدیدار نے اُن سے رابطہ نہیں کیا ہے اور اُن کا کہنا تھا کہ اگر مطالبہ جلد منظور نہ کیے گئے تو اس احتجاج میں اضافہ ہو سکتا ہے۔