میر علی کے علاقے میں ہونے والی تازہ جھڑپ میں چار اہلکار ہلاک جب 11 مشتبہ شدت پسند بھی مارے گئے۔
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی جمعرات کو دوسرے روز بھی جاری رہیں لیکن اس دوران کسی طرح کی جھڑپ کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق میر علی اور اس کے گردو نواح میں سکیورٹی فورسز نے علاقے کو محفوظ بنانے کے سرگرمیاں جاری رکھیں اور اس دوران ملنے والے دو دیسی ساختہ بموں کو ناکارہ بنانے کے علاوہ بدھ کو شدت پسندوں کے حملے میں شدید زخمی ہونے والے تین اہلکاروں کو پشاور منتقل کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق بدھ کو میران شاہ کے قریب ماچس کیمپ نامی علاقے میں شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا جس میں ایک افسر سمیت چار اہلکار ہلاک ہوگئے۔ جوابی کارروائی میں 11 شدت پسند بھی مارے گئے۔
اس سے قبل بدھ کی صبح سکیورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں کی مدد سے مشتبہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور اس دوران کم ازکم 60 دہشت گرد مارے گئے۔
فوج کے مطابق فضائی کارروائیوں میں حالیہ دنوں میں پشاور، مہمند اور باجوڑ میں ہونے والے بم حملوں میں ملوث عناصر کو نشانہ بنایا گیا اور مرنے والوں میں غیر ملکی عسکریت پسندوں سمیت شدت پسندوں کے بعض اہم کمانڈر بھی شامل تھے۔
ذرائع ابلاغ کی قبائلی علاقوں میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
ادھر بعض اطلاعات کے مطابق شمالی وزیرستان میں ایک اہم شدت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر نے سکیورٹی فورسز کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں انھیں امن معاہدوں پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔
تاہم اس بارے میں کوئی مصدقہ معلومات تاحال حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
حکومت نے ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا جو ایک ماہ سے زائد عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ ان قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں طالبان شدت پسندوں کے مختلف دھڑوں میں آپس کے اختلافات کے باعث ایک دوسرے پر حملے اور جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جن میں درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے امن بحال کرنا چاہتی ہے اور طاقت کا استعمال آخری حربہ ہوگا، اور دہشت گرد حملوں کی صورت میں سکیورٹی فورسز جوابی کارروائی کا حق استعمال کریں گی۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق میر علی اور اس کے گردو نواح میں سکیورٹی فورسز نے علاقے کو محفوظ بنانے کے سرگرمیاں جاری رکھیں اور اس دوران ملنے والے دو دیسی ساختہ بموں کو ناکارہ بنانے کے علاوہ بدھ کو شدت پسندوں کے حملے میں شدید زخمی ہونے والے تین اہلکاروں کو پشاور منتقل کیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق بدھ کو میران شاہ کے قریب ماچس کیمپ نامی علاقے میں شدت پسندوں نے سکیورٹی فورسز پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا جس میں ایک افسر سمیت چار اہلکار ہلاک ہوگئے۔ جوابی کارروائی میں 11 شدت پسند بھی مارے گئے۔
اس سے قبل بدھ کی صبح سکیورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں کی مدد سے مشتبہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی اور اس دوران کم ازکم 60 دہشت گرد مارے گئے۔
فوج کے مطابق فضائی کارروائیوں میں حالیہ دنوں میں پشاور، مہمند اور باجوڑ میں ہونے والے بم حملوں میں ملوث عناصر کو نشانہ بنایا گیا اور مرنے والوں میں غیر ملکی عسکریت پسندوں سمیت شدت پسندوں کے بعض اہم کمانڈر بھی شامل تھے۔
ذرائع ابلاغ کی قبائلی علاقوں میں رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔
ادھر بعض اطلاعات کے مطابق شمالی وزیرستان میں ایک اہم شدت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر نے سکیورٹی فورسز کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں انھیں امن معاہدوں پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔
تاہم اس بارے میں کوئی مصدقہ معلومات تاحال حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
حکومت نے ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا جو ایک ماہ سے زائد عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ ان قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں نے اپنی محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں طالبان شدت پسندوں کے مختلف دھڑوں میں آپس کے اختلافات کے باعث ایک دوسرے پر حملے اور جھڑپیں ہوتی رہی ہیں جن میں درجنوں افراد مارے جا چکے ہیں۔
حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے امن بحال کرنا چاہتی ہے اور طاقت کا استعمال آخری حربہ ہوگا، اور دہشت گرد حملوں کی صورت میں سکیورٹی فورسز جوابی کارروائی کا حق استعمال کریں گی۔