شمالی وزیرستان اور باڑہ میں شدت پسندوں پر فضائی حملے

اطلاعات کے مطابق کارروائی میں غیر ملکی عسکریت پسندوں سمیت 35 سے زائد شدت پسند مارے گئے۔
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں کی مدد سے شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں اطلاعات کے مطابق 35 سے زائد جنگجو مارے گئے۔

عسکری ذرائع کے مطابق سکیورٹی فورسز نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب شمالی وزیرستان میں میرعلی اور دتہ خیل کے مختلف علاقوں میں مشتبہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

ان کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کے زیر استعمال بڑی مقدار میں اسلحہ اور بارودی مواد تباہ جب کہ 35 سے زائد جنگجو بھی ہلاک ہوئے۔ تاہم پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ذرائع ابلاغ کو رسائی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ہونے والے جانی نقصانات کی آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہے۔

مرنے والوں میں ایک درجن سے زائد غیر ملکی جنگجو بھی شامل ہیں۔ تاہم مقامی قبائلی ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں کم بتائی ہے۔

اسی اثناء میں جمعرات کو پشاور سے ملحقہ خیبر ایجنسی میں بھی سکیورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں کی مدد سے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی میں متعدد جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔

سکیورٹی ذرائع کے مطابق مرنے والوں میں رواں ماہ پشاور کے ایک سینما گھر پر دستی بم حملہ اور سکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی پر حملے میں ایک میجر کو ہلاک کرنےو الے شدت پسند بھی شامل ہیں۔

فوج کی طرف سے یہ تازہ کارروائی ایسے وقت کی گئی ہے جب قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں طالبان کے ایک گروہ نے تین سال قبل اغوا کیے 23 سکیورٹی اہلکاروں کو قتل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

بدھ کو پاکستانی فوج کی طرف سے بتایا گیا تھا کہ گزشتہ پانچ ماہ میں دہشت گردوں کے حملوں میں ایک سو سے زائد فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، اہلکاروں کی ہلاکت سے متعلق عموماً ایسے بیان بہت ہی کم سامنے آتے ہیں۔

ایف سی اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ حکومت کی مذاکراتی کوششیں تعطل کا شکار ہو چکی ہیں۔ سرکاری مذاکراتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ طالبان کی طرف سے فائربندی اور پرتشدد کارروائیاں روکنے کی یقین دہانی کے بغیر مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔

وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ حکومت نے سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا تھا لیکن شدت پسندوں کی طرف سے حالیہ دنوں میں کی جانے والی کارروائیوں پر پوری قوم کو افسوس ہوا ہے۔

’’دونوں طرف سے کمیٹیاں بنائی گئیں تو اس سے حکومت اور وزیراعظم نواز شریف کے اس اخلاص کا اظہار ہوتا تھا کہ وہ خون خرابے کے بغیر امن کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔‘‘

شدت پسندوں کی طرف سے حالیہ ہفتوں میں کراچی میں پولیس وین پر بم حملے میں 13 اہلکاروں کی ہلاکت کی ذمہ داری اور بعد ازاں مہمند میں مغوی سکیورٹی اہلکاروں کے قتل کے دعوے کے بعد حکومتی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک کے دفاعی اداروں کے تحمل کو کسی صورت بھی ان کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔

جمعرات کو سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے لیکن دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔