پاکستان کی ایک عدالت نے لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی کے مقدمۂ قتل میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج واجد علی نے مقدمے کی سماعت شروع کی تو پرویز مشرف کے وکیل نے طبی بنیادوں پر اپنے موکل کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی۔
وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ ملزم سیاسی سرگرمیوں میں پوری طرح فعال ہیں لیکن مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہو رہے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا اور کچھ دیر بعد سابق صدر پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انھیں آئندہ سماعت یعنی 27 اپریل کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
اس مقدمے کی گزشتہ سماعت 10 مارچ کو ہوئی تھی جس میں عدالت نے پرویز مشرف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جب کہ ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا کہا تھا۔
جمعرات کو عدالت میں پیش نہ ہونے پر جج نے سابق صدر کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری میں تبدیل کرتے ہوئے ضمانتی مچلکے بھی ضبط کرنے کا حکم دیا۔
پرویز مشرف کے وکلا کی ٹیم میں شامل وکیل چودھری فیصل حسین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے موکل کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے بلوچستان کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا جس نے ان کا معائنہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ اس بورڈ کی رپورٹ آنے تک ان کے موکل کے استثنیٰ سے متعلق فیصلہ نہ کیا جائے لیکن عدالت نے اسے مسترد کر دیا۔
چودھری فیصل نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کریں گے۔
"اس فیصلے کے خلاف ہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرثانی کی پیٹیشن دائر کریں گے اور وہاں ہم اپنی تمام توجیہات اور اپنے دلائل پیش کریں گے ۔۔ہمیں توقع ہے کہ وہ انصاف سے فیصلہ کریں گے"۔
جولائی 2007ء میں اسلام اباد کی لال مسجد میں چھپے مبینہ شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی طرف سے کیے گئے آپریشن کے دوران عبدالرشید غازی سمیت 100 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
عبدالرشید غازی کے لواحقین کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا جس میں لواحقین نے الزام عائد کر رکھا ہے کہ لال مسجد آپریشن کا حکم جنرل پرویز مشرف نے دیا تھا لہذا وہ ہی ان افراد کے قاتل ہیں۔
پرویز مشرف کا موقف ہے کہ اس وقت کی حکومت نے ریاست کی عمل داری بحال کرنے کے لیے اس آپریشن کا حکم دیا تھا۔
پاکستان میں اکتوبر 1999ء میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف 2008ء تک ملک کے صدر رہے۔ انھیں اس مقدمے کے علاوہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور بلوچستان کے قوم پرست رہنما اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات میں بھی عدالتی کارروائیوں کا سامنا ہے۔
اس کے علاوہ پرویز مشرف کو نومبر 2007ء میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی پاداش میں سنگین غداری کے مقدمے کا بھی سامنا ہے جس میں ان پر گزشتہ سال مارچ میں فرد جرم بھی عائد کی جا چکی ہے۔