پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں اضافہ

پولیو کے کیسز میں اس تیزی سے اضافے کی وجہ گزشتہ برس اور پھر رواں سال کے اوائل میں بھی انسداد پولیو کی مہم کا سلامتی کے خدشات کے باعث متعدد بار تعطل کا شکار ہونا بتائی جاتی ہے۔

رواں سال کے پہلے سات ماہ میں پاکستان میں رپورٹ میں ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد گزشتہ پورے برس کے کیسز سے تجاوز کر گئی ہے۔

پولیو کے تین کیسز شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے رپورٹ ہوئے جب کہ سندھ کے علاقے سانگھڑ میں بھی ایک بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔

نئے کیسز کے بعد رواں سال یہ تعداد 94 ہو گئی جب کہ گزشتہ برس یہ تعداد 93 تھی۔ 2013 میں جولائی تک محض ایک درجن کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

پولیو کے کیسز میں اس تیزی سے اضافے کی وجہ گزشتہ برس اور پھر رواں سال کے اوائل میں بھی انسداد پولیو کی مہم کا سلامتی کے خدشات کے باعث متعدد بار تعطل کا شکار ہونا بتائی جاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک سے پولیو وائرس پر قابو پانے کے لیے بھرپور اور تواتر سے انسداد پولیو مہم کا جاری رہنا بے حد ضروری ہے۔

حکومت اور متلعقہ ادارے اس عزم کا اظہار کرتے آرہے ہیں کہ وہ اس موذی وائرس پر کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی وضع کرنے کے بعد اس پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہے ہیں۔

پاکستان، نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔

رواں سال مئی میں عالمی ادارہ صحت کی سفارش پر پاکستان کو دنیا میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بننے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد یہاں سے بیرون ملک سفر کرنے والوں کے لیے پولیو ویکسین پینا اور اس کا کارڈ دکھانا لازمی قرار دیا جا چکا ہے۔