ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کے پارلیمانی انتخابات سے متعلق اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ 20 ماہ کا عرصہ پاکستان کے لیے خاصا خطرناک رہا ہے اور 8 فروری کے الیکشن ماضی کی سیاسی طاقت کے کھیل اور بدسلوکیوں کے سائے میں ہو رہے ہیں۔ حزب اختلاف کو دبا دیا گیا ہے، ناقدین اور میڈیا کے منہ بند کر دیے گئے ہیں اور سول سوسائٹی کے لیے جگہ مزید سکڑ گئی ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی اقتدار میں دوبارہ واپسی متوقع ہے جب کہ حزب اختلاف کی جماعتوں، بنیادی طور پر عمران کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ دیگر کئی جماعتوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد حراست میں لیے گئے تھے۔
ان میں سے کچھ افراد پر تشدد کے الزامات تھے۔ مبینہ دباؤ یا لالچ کے تحت پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ کچھ سیاست دانوں اور صحافیوں پر بغاوت سے متعلق پاکستان کے مبہم قانون کے تحت فرد جرم عائد کی گئی اور درجنوں کے خلاف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں مقدمات بھیج دیے گئے۔
ہیومن رائٹس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ فلم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ کئی عشروں کے دوران جاری رکھی گئی ساز باز اور ہیراپھیری نے اس ملک میں جمہوری استحقاق اور حقوق کے لیے قائم کیے جانے والے اداروں کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ پاکستان میں انتخابات شاذ و نادر ہی آزادانہ اور منصفانہ ہوتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ملک پر تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والے براہ راست اور بالواسطہ فوجی کنٹرول نے پاکستان میں جمہوریت کے تجربے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔
پاکستان میں اب سیاست کے قواعد یہ ہیں کہ اقتدار میں آنے کے لیے فوج کے ساتھ اتحاد کریں۔ فوج کو چھوڑنے پر اقتدار سے نکال دیے جائیں۔ اقتدار کے دوران حزب اختلاف کے خلاف کریک ڈاؤن کریں، میڈیا کو دبائیں اور ناقدین کو ڈرائیں دھمکائیں۔
2018 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی پارٹی کو کونے سے لگا کر سابق بین الاقوامی کرکٹ سٹار عمران خان کے لیے اقتدار کا راستہ صاف کیا گیا۔ کیونکہ نواز شریف نے فوج سے فاصلہ کر لیا تھا۔ انہیں کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے بعد بالآخر جلاوطن ہونا پڑا۔
2018 کے انتخابات میں ووٹنگ میں دھاندلی اور دیگر سازشوں کے الزامات نے الیکشن کی شفافیت کو متاثر کیا۔ اپوزیشن کے خلاف نوآبادیاتی دور کے قوانین استعمال کیے گئے۔ صحافیوں کو دھمکیوں اور میڈیا کو سینسر شپ کا سامنا کرنا پڑا۔
SEE ALSO: بحرانوں کے باوجود پاکستانی انتخابات پر بدستور شخصیات کا غلبہپھر کہانی الٹ گئی۔ اپریل 2022 میں خان کی حکومت آئینی بحران اور عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں جاتی رہی جس کے بعد 9 مئی کو پرتشدد تصادم اور جھڑپیں اس وقت اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئیں جب عمران خان کے حامیوں نے سرکاری اور فوجی تنصیبات پر پر ہجوم حملے کیے۔
30 جنوری کو عمران خان کو 1923 کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
اس سزا سے قبل ایک عدالت نے ان کی جماعت کو پارٹی کے اندر انتخابات نہ کرانے پر پارٹی کے سرکاری نشان "کرکٹ کے بلے"سے محروم کر دیا۔ جس کی وجہ سے ان لاکھوں افراد کے ووٹ داؤ پر لگ گئے جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے اور خان کو ان کی پارٹی کے نشان "بلے "سے شناخت کرتے ہیں۔
درایں اثنا نواز شریف نے سیکیورٹی فورسز اور دیگر پاور بروکرز سے مفاہمت کر لی ہے اور عمران خان کی پارٹی کے خلاف اتحاد بنانے کے لیے جلاوطنی ترک کر کے وطن واپس آ گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمران خان اور نواز شریف دونوں ہی نے 2006 کے اس سیاسی معاہدے کو نظر انداز کیا ہے جو چارٹر آف ڈیموکریسی کے نام سے موسوم ہے۔ یہ معاہدہ پاکستانی سیاست دانوں کی جانب سے جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ سے گریز کرنے کا عہد نامہ ہے۔
موجودہ اور سابقہ سیاسی رہنماؤں کے اس عہد نامے سے گریز نے حقوق کا احترام کرنے والی جمہوریت کے لیے ضروری ڈھانچے کی تشکیل کو ناکام بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔
اس ناکامی کے نتیجے میں پاکستان میں میڈیا مسلسل دباؤ میں ہے اور درجنوں صحافی یکے بعد دیگرے حراست میں جاتے رہے ہیں یا غائب کر دیے گئے ہیں۔
توانا سول سوسائٹی پروان نہیں چڑھ سکی۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات روکنے سے مقامی آبادیاں اپنے حقوق اور نمائندگی کے حق سے محروم ہو گئیں۔ سیاسی تنازعات میں عدلیہ کی جانب سے مداخلت کے معمول نے انصاف کو متاثر کیا اور انہیں سیاسی انجنیئرنگ کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ سیاسی تقرریوں نے الیکشن کمشن کی ساکھ اور آزادی کو نقصان پہنچایا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کمپوٹرائزڈ کارڈ کے حصول کے طریقہ کار سے تقریباً ایک کروڑ سے زیادہ خواتین ووٹر متاثر ہوئی ہیں اور احمدیہ فرقے سے متعلق قوانین انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روکتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ یہ چیزیں پاکستان میں انسانی حقوق کے بحران کا مظہر ہیں۔ جب تک ملک کے رہنما اپنی روش تبدیل نہیں کرتے، تنقید اور دیگر بنیادی آزادیوں کے لیے سیاسی رواداری کے کلچر کو فروغ نہیں دیتے، سیاسی عدم استحکام، معاشی بدحالی اور سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال پاکستان کے شہریوں کے لیے مسائل پیدا کرتی رہے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے رہنماؤں کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ انتخابات صرف اقتدار میں آنے کے لیے نہیں ہوتے، بلکہ وہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے حقیقی عزم کے ساتھ معاشرے کی تقسیم اور تقطیب یا پولورائزیشن کی سیاست پر قابو پانے کا ایک موقع بھی ہیں۔
(ہیومن رائٹس واچ)