گیس کا بحران، مسئلہ کیا ہے؟

فائل

پاکستان میں موسم سرما کے دوران گیس کا بحران شدید ہو گیا ہے اور رواں سال پنجاب کے علاوہ کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں بھی گھریلو صارفین کے لیے گیس دستیاب نہیں ہے۔ دوسری جانب گیس کے ہزاروں روپے کے بلوں نے بھی عوام کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ گیس کے اضافی بلوں کی تحقیقات کے لیے کمیٹی جلد اپنی سفارشات وزیر اعظم کو دے گی. پاکستان میں اس بحران کی وجہ کیا ہے۔ ذیل میں ہم نے انہی اُمور کا جائزہ لیا ہے۔

گیس کی طلب اور رسد میں فرق

پاکستان میں سردیوں میں قدرتی گیس کی طلب بڑھنے اور پیداوار محدود ہونے کے سبب گھریلو صارفین، صنعت اور سی این جی سمیت مختلف شعبوں کو گیس کی بندش کا سامنا ہے۔ سردیوں میں یومیہ گیس کی طلب آٹھ ارب کیوبک فٹ ہوتی ہے جبکہ سسٹم میں موجود گیس صرف چار ارب کیوبک فٹ ہے۔

ایسے میں ملک کو تقریباً چار ارب یومیہ کیوبک فٹ گیس کی کمی کا سامنا ہے۔ ایسے میں گیس سپلائی کرنے والی دونوں کمپنیاں سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس سپلائی کمپنی گیس لوڈ مینجمنٹ پلان بناتی ہیں جس میں ترجیح گھریلو صارفین کو دی جاتی ہے۔

وزرات پیٹرولیم کے ترجمان شیر افگن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سال ایل این جی کی دستیابی کے باعث امکان تھا کہ گیس بحران شدت اختیار نہیں کرے گا۔ تاہم، گذشتہ سالوں کی نسبت اس میں کمی ضرور آئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ موسم کی شدت کے باعث دسمبر سے فروری کے دوران تین ماہ میں گیس کی طلب میں اضافے کو مد نظر رکھتے ہوئے لوڈ مینجمنٹ پلان بنانا گیا اور موسم کے بہتر ہوتے ہی گیس بحران کی صورتحال میں بھی بہتری آئی گی۔

قدرتی گیس کے کم ہوتے ذخائر اور بڑھتی ہوئی طلب کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت قطر سے ایل این جی یا مائع قدرتی گیس درآمد کر رہی ہے۔ لیکن، صورتحال بہتر نہیں ہوئی ہے۔ حکومتی وعدوں کے برعکس برآمدات میں اہم کردار ادا کرنے والی صنعتوں کو بھی گیس نہیں مل رہی ہے۔

ایل این جی سے حاصل ہونے والی گیس صنعتوں، سی این جی اور پاور پلانٹس کو فراہم کی جا رہی ہے جبکہ درآمدی ایل این جی کے جہاز کی آمد میں تاخیر سے صنعتوں کو بھی گیس کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔

درآمدی مائع گیس کے جہازوں کی آمد میں تاخیر

گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے قطر سے جو مائع قدرتی گیس درآمد کی گئی ہے اُس میں تاخیر کی وجہ سے بھی گیس کا بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔

پاکستان قطر سے مائع قدرتی گیس درآمد کر رہا جو بحری جہازوں کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ پہنچتی ہے۔ مائع قدرتی گیس یا ایل این جی کو کراچی بندرگاہ پر نصب پلانٹس کے ذریعے دوبارہ مائع سے گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے اور سسٹم میں شامل کیا جاتا ہے۔

گیس کے بحران میں حالیہ شدت کی وجہ بھی پورٹ قاسم پر جہاز کا بر وقت لنگر انداز نہ ہونا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ایل این جی کے دو جہازوں کے کراچی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے سے صوتحال میں بہتری آئی گی۔

وزارت پٹرولیم کے بیان کے مطابق ایل پی جی کا ایک بحری جہاز کراچی میں لنگرانداز ہو گیا ہے جس کے بعد ملک میں گیس کی صورتحال میں بہتری کا امکان ہے۔ اور مجموعی طور پر سسٹم میں 250 ایم ایم سی ایف ڈی گیس شامل ہو جائے گی۔

گیس آتی نہیں لیکن بل ہزاروں روپے کا‘

عزیز اسلام آباد کے رہائشی ہیں اور اُن کا خاندان پانچ افراد پر مشتمل ہے لیکن اس مہینے اُن کا گیس کا بل ساڑھے تیرہ ہزار روپے آیا ہے۔

عزیز کا کہنا ہے کہ سردیوں میں گیس کا پریشر کم ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی تو بالکل بھی گیس نہیں آتی۔

انھوں نے کہا کہ ’’گیس آتی نہیں ہے۔ لیکن بل ہزاورں روپے کا آتا ہے۔‘‘

عزیز نے بتایا کہ ’’گیس کا بل دو سے تین ہزار روپے آتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ تو حد ہی ہو گئی ہے۔‘

یہ صرف فردِ واحد کی شکایت نہیں بلکہ پنجاب کے سینکڑوں صارفین گیس کے اضافی بلوں کی شکایت کر رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ گیس کی عدم فراہمی کے باوجود وہ گذشتہ ماہ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بل ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

اضافی بلوں پر راولپنڈی، لاہور سمیت مختلف شہروں میں احتجاج بھی کیا گیا جس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے صارفین کی شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر پیٹرولیم کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے۔

وزرات پیٹرولیم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ ایک سے دو دن میں متوقع ہے اور اس کی روشنی میں صارفین کی شکایتوں کا ازالہ کیا جائے گا۔

گیس کمپنیوں کی استعدادِ کار اور خسارے

حکومت کا کہنا ہے کہ گیس کمپنیوں میں 154 ارب روپے کے خسارے کے سبب حکومت کو گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ اگر گیس کی قیمتوں میں سبسڈی ختم کر کے اضافہ نہ کیا جاتا تو گیس فراہم کرنے والی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں بند ہو جاتیں۔

توانائی کے امُور کے ماہر احد نظیر کا کہنا ہے کہ کہ گیس کی طلب میں ہر سال اضافہ ہو رہا اور ضرورت ہے کہ گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں سوئی سدرن اور سوئی نادرن کی استعداد کار کو بڑھایا جائے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پورے ملک کو گیس ان دو کمپنیوں کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہے اور صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔

ایسے میں دو کے بجائے مزید ریجنز بنائے جائیں، تاکہ ان کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔ گیس کے شعبے میں اربوں روپے مالیت کی چوری بھی خسارے کی بڑی وجہ ہے۔

احد نظیر کا کہنا ہے کہ چھوٹے انتظامی یونٹس بنانے سے گیس کی چوری، لوڈ مینجمنٹ جیسے مسائل دور ہوں گے اور جدید ٹیکنالوجی متعارف کروانے سے بہتری آئے گی۔

پاکستان میں محض 28 فیصد صارفین کو پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کی جاتی ہے۔ ملک میں گیس کے دریافت کردہ ذخائر میں کمی اور نئے ذخائر نہ ملنے کے سبب گیس کا بحران ہر سال مزید شدید ہو رہا ہے۔

حکومت مستقبل میں گھریلو صارفین کے لیے قدرتی گیس کے متبادل کے طور پر مائع پیٹرولیم گیس کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ لیکن مقامی سطح پر ایل پی جی کی قیمتوں کے تعین کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔