افغانستان میں مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد امریکی اور نیٹو افواج تعینات ہیں جن کے لیے غیر مہلک رسد کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے راستے بھیجاجاتا ہے۔ یہ سامان رسد کراچی کی بندرگاہ پر پہنچنے کے بعد ٹرکوں کے ذریعے طورخم اور چمن کے راستے افغانستان پہنچتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے مواصلات ارباب عالمگیر نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستان کے راستے لگ بھگ پانچ سو ٹرک روزانہ افغانستان میں داخل ہوتے ہیں اور ان بھاری گاڑیوں کی آمد ورفت سے پچھلے چار سالوں کے دوران اہم قومی شاہراہوں کو اندازً 80 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
اُنھوں نے بتایاکہ وزرات خارجہ کی وساطت سے پاکستان نے نیٹو اور امریکی حکام سے یہ مطالبہ کر رکھا ہے کہ شاہراہوں کی مرمت کے لیے اُسے یہ رقم فوری طور پر درکار ہے تاکہ نیٹو کے قافلوں کی آمد و رفت بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے۔
وفاقی وزیر نے اعتراف کیا کہ اب تک اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے لیکن اُن کی وزرات مسلسل اس معاملے کو اُجاگر کرتی رہے گی۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ شاہراہیں ملک کی اقتصادی اور تجاری سرگرمیوں میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں اس لیے ان کی فوری مرمت ناگزیر ہے ۔
ارباب عالمگیر نے توقع ظاہر کی کہ قومی شاہراہوں کو پہنچنے والے نقصانات کا معاملہ آگے چل کر پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹیجک ڈئیلاگ کا ایک حصہ بھی بنے گا ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان سے گزرنے والے نیٹو کے قافلوں پر حالیہ مہینوں میں حملوں اضافہ ہوا ہے اور ان واقعات میں سینکڑوں آئل ٹینکروں اور دیگر سامان سے لدی گاڑیوں کو نذر آتش کیا جاچکا ہے جب کہ حملہ آوروں کی فائرنگ سے متعدد افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں جن میں اکثریت ٹرک ڈرائیوروں کی تھی۔