وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز کا کہنا تھا خارجہ اور دفاع سے متعلق پالیسیاں بھی آئندہ چند ہفتوں میں آئیں گی جب تحقیق مکمل ہوجائے گی۔
اسلام آباد —
پارلیمان میں ملک کی ’’پہلی داخلی سلامتی‘‘ کی پالیسی پیش کیے جانے کے ایک روز بعد وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز نے بتایا کہ پاکستان کو لاحق اندرونی و بیرونی خطرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک جامع قومی سلامتی پالیسی کی تیاری کا عمل بھی جاری ہے۔
جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اراکین اس پالیسی کے مختلف نکات پرغور کر رہے ہیں۔
’’جو کل پالیسی پیش ہوئی ہے یہ اس کا ایک حصہ ہے اور جو جامع پالیسی ہے۔ کمیٹی اسے مرتب کر رہی ہے۔ اس میں خارجہ پالیسی کے نکات ہیں جس میں افغانستان، بھارت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات پھر دفاع کی پالیسی۔ داخلی پالیسی اشدت ضروری تھی اس لئے یہ پہلے آ گئی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ خارجہ اور دفاع سے متعلق پالیسیاں آئندہ چند ہفتوں میں آئیں گی جب تحقیق مکمل ہوجائے گی۔
وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ افغانستان سے متعلق مجوزہ سیکورٹی کا معاہدہ واشنگٹن اور کابل کے درمیان معاملہ ہے اور افغانستان بحیثیت خود مختار ملک اس پر خود فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے اس لئے اسلام آباد اس پر کوئی رائے نہیں رکھتا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ رواں سال کے اواخر میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد اسلام آباد کو خدشہ ہے کہ وہاں عسکری بغاوت میں غیر معمولی اضافہ نا ہو جائے جوکہ پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
صوبہ خیبرپختونخواہ کے سابق وزیراعلیٰ اور عوامی نیشنل پارٹی کے قانون ساز امیر حیدر خان ہوتی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں قیام امن کے لیے دونوں ہمسایہ ممالک میں تعاون ناگزیر ہے۔
’’طویل المدت اقدام کے لیے پالیسیاں بننی چاہیئں لیکن ہمیں امن ابھی چاہیے۔ اس کے لیے حکومت واضح موقف لے کہ مذاکرات ہونے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم پوری فوج وزیرستان لے جائیں اور اگر افغانستان سے ہمارا اور افغانستان کا ہم سے تعاون نا ہو تو کوئی آپریشن بدقسمتی سے کامیاب نہیں ہوگا۔‘‘
پاکستانی، افغان اور امریکی سیکورٹی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ کسی بھی فوجی کارروائی سے بھاگ کرعسکریت پسند پاک افغان سرحد کے قریبی پہاڑی علاقوں میں اپنی اماجگاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی بھی مخصوص گروہ کی حمایت نہیں کرتا اور وہاں قیام امن کے لیے افغانوں کی زیر قیادت مفاہمتی عمل کی حمایت کرتا ہے۔
جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اراکین اس پالیسی کے مختلف نکات پرغور کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خارجہ اور دفاع سے متعلق پالیسیاں آئندہ چند ہفتوں میں آئیں گی جب تحقیق مکمل ہوجائے گی۔
وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ افغانستان سے متعلق مجوزہ سیکورٹی کا معاہدہ واشنگٹن اور کابل کے درمیان معاملہ ہے اور افغانستان بحیثیت خود مختار ملک اس پر خود فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے اس لئے اسلام آباد اس پر کوئی رائے نہیں رکھتا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ رواں سال کے اواخر میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد اسلام آباد کو خدشہ ہے کہ وہاں عسکری بغاوت میں غیر معمولی اضافہ نا ہو جائے جوکہ پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
صوبہ خیبرپختونخواہ کے سابق وزیراعلیٰ اور عوامی نیشنل پارٹی کے قانون ساز امیر حیدر خان ہوتی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں قیام امن کے لیے دونوں ہمسایہ ممالک میں تعاون ناگزیر ہے۔
’’طویل المدت اقدام کے لیے پالیسیاں بننی چاہیئں لیکن ہمیں امن ابھی چاہیے۔ اس کے لیے حکومت واضح موقف لے کہ مذاکرات ہونے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم پوری فوج وزیرستان لے جائیں اور اگر افغانستان سے ہمارا اور افغانستان کا ہم سے تعاون نا ہو تو کوئی آپریشن بدقسمتی سے کامیاب نہیں ہوگا۔‘‘
پاکستانی، افغان اور امریکی سیکورٹی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ کسی بھی فوجی کارروائی سے بھاگ کرعسکریت پسند پاک افغان سرحد کے قریبی پہاڑی علاقوں میں اپنی اماجگاہوں میں چھپ جاتے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی بھی مخصوص گروہ کی حمایت نہیں کرتا اور وہاں قیام امن کے لیے افغانوں کی زیر قیادت مفاہمتی عمل کی حمایت کرتا ہے۔