پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ایک نئے عزم سے بھرپور جنگ کا آغاز دو سال قبل پشاور میں اسکول پر شدت پسندوں کے مہلک حملے کے بعد ہوا تھا۔
اس حملے کے بعد ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت اسلام آباد میں اکٹھی ہوئی اور انسداد دہشت گردی کا ایک قومی لائحہ عمل متفقہ طور پر تیار کیا گیا، جس کے تحت قانون سازی بھی کی گئی اور دو سال کے لیے فوجی عدالتیں بنانے کا فیصلہ بھی ہوا۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے دو سال مکمل ہونے پر جمعہ کو جہاں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے بچوں کے والدین اور خاندانوں سے یکجتہی کا اظہار کیا گیا وہیں ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ بھی دہرایا گیا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی سول سوسائٹی کے نمائندے اکٹھے ہوئے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اتفاق رائے سے طے پانے والے قومی لائحہ عمل کی ہر شق پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
اس مظاہرے میں شریک گل زہرہ رضوی کہتی ہیں کہ اُن کے یہاں جمع ہونے کا مقصد یہ بتانا بھی ہے کہ پشاور میں اسکول پر حملے کو قوم نہیں بھولی ہے۔
’’ہمارا مطالبہ یہ ہی کہ 16 دسمبر 2014 کو ایک بہت بڑا سانحہ ہوا، جس کو پاکستان کا سب سے بڑا سانحہ کا کہا جائے تو کم نہیں ہے، نیشنل ایکشن پلان کو اگر ردی کی بوریوں میں دفن نا کر دیا جائے اور اس کی روح کی مطابق عمل کیا جائے تو پاکستان بہت آرام سے دہشت گردی کے بھوت سے نجات پا سکتا ہے۔‘‘
مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا ہے کہ امن ملک میں بسنے والوں کی اولین ترجیح ہے، اس لیے حکومت بلاتفریق دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے۔
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ اب بھی ملک میں وقفے وقفے سے دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور اُن کے بقول شدت پسندی سے چھٹکارے کے لیے ریاست کے تمام اداروں کو یکجا ہونا ہو گا۔
’’اس سے قبل کہ اس طرح کسی اور سانحہ پر آپ قوم کو ماتم کرنے پر مجبور کریں، تو آج کے دنہ ماری یکجہتی اُن والدین کے ساتھ ہے جن کے بچے اُن کی زندگیوں سے چلے۔۔۔ اور ہم اپنی ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔‘‘
واضح رہے کہ رواں سال کوئٹہ کے سول اسپتال کے احاطے میں جمع وکلا پر دہشت گرد حملے کے حقائق جاننے کے لیے بنائے گئے سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ ملک میں انسداد دہشت گردی کے قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے دہشت گردی میں ملوث تنظیموں پر فوری پابندی عائد کی جائے۔
اُدھر پاکستانی فوج سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے جو زخم لگایا وہ بہت گہرا ہے۔
’’جو ہماری ایک جدوجہد ہے دہشت گردی کے خلاف ہے۔۔۔ ہم اس وقت تک جب تک ہم ہر بچے کے خون کا حساب نہیں لے لیتے، پاکستان سے دہشت گردی کا قلع قمع نہیں کر لیتے ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے ہم پر ان بچوں کا خون قرض ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے بھی اپنے ایک تحریری بیان میں کہا کہ مستقبل کی نسلوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
دریں اثنا پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 13 مزید ’دہشت گردوں‘ کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے مطابق سزائے موت پانے والوں میں میریٹ ہوٹل اسلام آباد، چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی اور راولپنڈی کی پریڈ لین کی مسجد پر حملہ کرنے والے عسکریت پسند شامل ہیں۔