دو ہزار مشتبہ افراد گرفتار کیے گئے ہیں: وزارت داخلہ

وزارت داخلہ کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیوں نے چند ایسے مدرسوں کی نشاندہی کی ہے جن پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا شبہ ہے اور اس کی تحقیق کے لیے تین نکاتی حکمت عملی ترتیب دے دی گئی ہے۔

پاکستان کی وزارت داخلہ کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیوں نے چند ایسے مدرسوں کی نشاندہی کی ہے جن پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا شبہ ہے اور اس کی تحقیق کے لیے تین نکاتی حکمت عملی ترتیب دے دی گئی ہے۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر سرچ آپریشن کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں اب تک مزید دو ہزار مشتبہ افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ملک میں غیر قانونی موبائل فون سمز کی فروخت کو روکنے اور اُن کے استعمال پر پابندی کے لیے قانون سازی کی جا رہی ہے اور فون کمپنیوں کو 90 دن کا وقت دیا گیا کہ وہ ایسی تمام سمز کی تصدیق کا عمل مکمل کر لیں بصورت دیگر ان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔

وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں تمام متعلقہ ادارے تیزی سے مصروف عمل ہیں۔

وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کی زیر صدارت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی ادارے "نیکٹا" اور دیگر متعلقہ اداروں کے عہدیداروں کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔

بیان کے مطابق اب تک چار کروڑ سمز کی تصدیق کی جاچکی ہے جب کہ دیگر 10 کروڑ کی تصدیق کے لیے موبائل فون کمپنیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت 90 روز میں یہ عمل مکمل کیا جائے گا۔

ملک میں دہشت گردی کے لیے ایک عرصے سے موبائل فون کو ڈیوائس یعنی ’آلے‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور حکام اسے ایک انتہائی حساس معاملہ قرار دیتے آرہے ہیں۔

16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے ملکی تاریخ کے بدترین دہشت گردانہ حملے کے بعد تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں اور پاکستانی فوج کی مشاورت سے حکومت نے ایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا تھا جس کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور فوری اقدامات کرنا ہے۔

پشاور اسکول حملے میں 133 بچوں سمیت 149 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے اندراج کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا اور صرف پنجاب میں حالیہ دنوں کے دوران 7000 پناہ گزینوں کو رجسٹر کیا گیا۔

پاکستان میں تقریباً تیس لاکھ افغان پناہ گزین گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 17 لاکھ رجسٹرڈ ہیں جب کہ باقی بغیر قانونی دستاویزات کے یہاں موجود ہیں۔

اکثر جرائم میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے بھی شواہد ملتے رہے ہیں اور اسی بنا پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔

سرکاری بیان کے مطابق نفرت انگیز مواد اور لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اس ضمن میں 176 شکایات رجسٹر کی گئیں اور لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر 115 افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔

علاوہ ازیں شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے حامیوں کی نشاندہی بھی کی جا رہی ہے اور حکام کے بقول صرف پنجاب میں ایسے 95 افراد کی نشاندہی ہونے کے بعد ان کی گرفتاری کے لیے سرگرمیاں جاری ہیں۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک تمام شر پسند عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی جاری رہے گی۔