نیشنل ایکشن پلان: چار سال میں کتنے اہداف حاصل ہوئے؟

پاکستانی آرمی کے سپاہی پشاور آرمی پبلک اسکول پر حملے کے اگلے دن اسکول میں موجود ہیں۔ 17 دسمبر 2014.

آرمی پبلک سکو ل پر حملے کو چار سال مکمل ہو گئے ہیں اس سانحے سے جہاں پورا ملک غم اور تکلیف میں ڈوب گیا وہیں قومی سطح پر ایک وسیع اتفاق رائے بھی ہوا کہ اچھے اور برے طالبان میں تفریق کیے بغیر دہشت گردوں کےخلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی۔

اس واقعے کے بعد ملک کی سویلین اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا اور آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں بنائی گئی۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوجی عدالتیں بنانے کا مقصد یہ تھا کہ دہشت گردی کے مقدمات میں عام عدالتوں میں ٹرائل کے دوران بعض اوقات ججوں اور وکلا کو دھکمیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں کیسز زیرالتوا تھے۔ اسی مقصد کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی سمیت بعض جماعتوں کے تحفظات کے باوجود فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق فوجی عدالتوں کے قیام سے اب تک 717 دہشت گردوں کے کیسز میں سے 546 کے فیصلے سنا دیے گئے ہیں اور فوجی عدالتوں میں 310 دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی جن میں سے 56 کی سزا پر عملدرآمد بھی ہوچکا ہے۔

آرمی پبلک اسکول واقعے کے بعد فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت دو سال تھی۔ جس کی مدت میں مزید دو سال کی توسیع بھی کی گئی۔

لیکن چار سال گزرنے کے باجود بھی نینشل ایکشن پلان کے بعض نکات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ انسدادِ دہشت گردی کا ادارہ نیکٹا تاحال مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکا اور نیکٹا کا ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس تشکیل ہی نہیں پاسکا، انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے معلومات کی شئیرنگ آج بھی اس طرح سے نہیں ہورہی جس طرح سوچا گیا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے نئیر حسین بخاری کہتے ہیں کہ ماضی کی حکومت نے بھی اس پر عمل درآمد نہیں کیا اور اب بھی وہی رویہ جاری ہے، اس پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ ہونے سے دہشت گردی مکمل ختم نہیں ہو سکتی۔

نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جزو کالعدم تنظیموں پر کنٹرول کا تھا جس میں جزوی کامیابی ہوئی، جبکہ بعض ایسی تنظیمیں ابھی بھی کام کررہی ہیں جن پر ریاستی سرپرستی کا الزام تھا۔ تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ اگر نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کر لیا جاتا تو آج ایف اے ٹی ایف کی طرف سے اس رویے کا سامنہ نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ شروع دن سے ہی اس پر سیاسی جماعتوں نے اتفاق تو کرلیا لیکن اس کے مختلف پہلوؤں پر عمل درآمد سے لیت و لعل برتا گیا۔

اسی پلان کے تحت انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہونے والے آپریشنز کے نتیجہ میں ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا، جبکہ سینکڑوں کا نام انتہائی نگرانی کی فہرست یعنی فورتھ شیڈول میں بھی شامل کیا گیا، سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے کہا کہ اس پلان کے شارٹ ٹرم منصوبوں پر تو عمل ہو گیا لیکن لانگ ٹرم منصوبے اب بھی حل طلب ہیں، منی لانڈرنگ، مدارس ریفارمز، تعلیمی نصاب یہ سب وہ اہم موضوع ہیں جنہیں ہمیں ہر حال میں درست کرنا ہوگا۔

نیشنل ایکشن پلان کے مطابق لاؤڈ اسپیکر ایکٹ پر سختی سے عمل درآمد کروایا گیا جبکہ اسکولوں اور مدارس کے نصاب کے حوالے سے اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی، مدارس کا مکمل ڈیٹا ماسوائے بڑے شہروں کے آج بھی حکومتی اداروں کے پاس نہیں۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت موبائل سمز کی تصدیق کا کام مکمل کرلیا گیا۔

پلان کا ایک جزو افغان مہاجرین کی وطن واپسی بھی تھی لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر اب تک یہ عمل بھی مکمل نہیں ہوسکا اور ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین اس وقت بھی کیمپس اور عام آبادیوں میں موجود ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتی رہیں اور صوبائی حکومتیں وفاق سے اور وفاق صوبوں سے شکوہ کناں رہے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔