پاکستان میں نیب اور سیاست

  • قمر عباس جعفری

پاکستان میں ان دنوں قومی احتساب بیورو یا NAB سیاست میں ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے اور اپوزیشن کا الزام ہے کہ نیب کو حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

پاکستان میں حکومت خود بھی نیب کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ اور اس کی کارکردگی کو بقول اس کے بہتر بنانے کے لئے ایک آرڈینینس بھی لایا گیا۔ جس کی مدت اب ختم ہو چکی ہے, لیکن اس دوران اس مقصد کے لئے کسی بھی جانب سے باقاعدہ قانون سازی کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب حکمراں جماعت پی ٹی ائی اور اس کی ایک اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے درمیان معاملات درست سمت میں نہیں جا رہے اور مسلم لیگ ق کا کہنا ہے کہ اس کے لیڈروں کے خلاف ایک، 20 سال پرانے کیس کو، جو کب کا ختم ہو چکا ہے، نیب کے ذریعے اٹھایا جا رہا ہے، جس کا مقصد بقول ان کے، مسلم لیگ۔ ق پر دباؤ ڈالنا ہے اور اس نے اس معاملے پر عدالت عالیہ سے رجوع کیا ہے۔ اور وہ حکمراں جماعت کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار بھی کر رہی ہے۔

مسلم لیگ۔ ق کے سینیٹر کامل علی آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قیادت کی عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے اور اگر یہ بات ثابت نہ ہوئی کہ اس معاملے میں حکومت کے ہاتھ صاف ہیں تو ہر چند کہ ہمارا حکومت کے ساتھ اتحاد کا معاہدہ ہے لیکن پارٹی کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔

نیب کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے دور سے، جب کہ یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا، ہر شخص جانتا ہے کہ اسے پولیٹیکل انجنیئرنگ کے لئے استعمال کیا گیا۔ تو اب کیا بدل گیا ہے جو یہ فرض کر لیا جائے کہ اب اسے اس مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور ایک ایسے 20 سال پرانے کیس کو جو بہت پہلے ختم ہو چکا ہے اس وقت اٹھانے سے اس کے سوا اور کیا تاثر مل سکتا ہے کہ یہ دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی ادارے کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے ورنہ اس کی کارکردگی پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اور اس وقت بھی یہ ہی سمجھا جا رہا ہے کہ نیب اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے۔ اسی لئے ہم نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا ہے۔ ہمارا موقف یہ کہ اس کیس کا اٹھایا جانا آئین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب جو کچھ بھی ہو گا وہ عدالت کے سامنے ہی ہو گا۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ کا پی ٹی ائی سے اتحاد ٹوٹ سکتا ہے اور کیا مسلم لیگ نون کے ساتھ جا سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ نہ کوئی چیز ناممکن ہوتی ہے اور یہ کہ آنے والا ہفتہ اس لحاظ سے انتہائی اہم ہو سکتا ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس بات کی قطعی تردید کی کہ حکومت کسی بھی مقصد کے لئے نیب کو استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خود اس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی خواہاں ہے۔

انہوں کہا کہ نیب کےبارے میں یہ تاثر کہ اسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اس وجہ سے ملتا ہے کہ نیب لوگوں کو بدعنوانیوں کے الزامات میں پکڑتی ہے اور جب معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو ناکافی یا ناقص ثبوت کی بنا پر ملزمان یا تو چھوٹ جاتے ہیں یا انہیں ضمانت مل جاتی ہے اور ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ نیب کے انویسٹیگٹنگ اور پراسیکیوٹنگ کے شعبوں کو الگ نہیں رکھا گیا جب کہ ساری دنیا میں اس نوعیت کے اداروں میں یہ شعبے الگ الگ ہوتے ہیں۔

تحقیقات کرنے والا شعبہ تحقیقات مکمل کر کے پراسیکیوٹنگ کے شعبے کو بھیجتا ہے جو کیس کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ معاملے کو عدالت میں مضبوط ترین بنیادوں پر پیش کیا جائے۔ جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔

انہوں کہا کہ حکومت اسی لئے قانون سازی کرنا چاہتی ہے۔ اور اس بارے میں اس کی ایک کمیٹی کام کر رہی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی کمیٹی بھی کام کر رہی ہے۔ دونوں کمیٹیوں کے مسودے ملا کر ایک مسودہ قانون تیار کیا جا سکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ مسلم لیگ ق حکومتی اتحاد سے الگ ہو گی۔

ممتاز سیاسی تجزیہ کار سلمان عابد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک تاثر ہو سکتا ہے کہ حکومت نیب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہے کیونکہ اگر واقعی ایسا ہوتا تو ایسے بہت سے لوگ جن پر مقدمات تھے، سزا پا چکے ہوتے۔ لیکن ان میں سے بہت سے چھوٹ گئے، بہت سوں کی ضمانتیں ہو گئیں۔

انہوں نے کہا کہ اس تاثر کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ نیب عام طور سے ان لوگوں کو گرفتار نہیں کرتی جن پر بدعنوانیوں کے الزامات ہوں اور وہ حکومت میں ہوں۔ اور یہ کہانی نئی نہیں ہے۔ نیب کے قیام کے بعد سے یہ ہی ہوتا رہا ہے اور اگر حکومت مخلص ہے تو اسے اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔

مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی کے درمیان اتحاد کیا ٹوٹ سکتا ہے؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان تعلقات شروع ہی سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں کیونکہ چودھری برادران پنجاب میں اختیارات چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہاں حکومت اگر ان کے ہاتھ میں نہ ہو تو کم از کم ان کی مرضی سے چلے، جس کے لئے وزیر اعظم تیار نہیں ہیں۔ اس لئے اتحاد کے رہنے اور نہ رہنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ کون دوسرے کے ساتھ اس حد تک چل سکتا ہے کہ اس کے سیاسی مفادات پر زیادہ ضرب نہ پڑے۔