خصوصی عدالت کا کہنا تھا کہ اس حکم پر عمل درآمد کو 14 مئی تک یقینی بنایا جائے تاکہ اس کے ایک ہفتے بعد شہادتیں ریکارڈ کرنے کا عمل شروع کیا جا سکے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف آئی اے" کو حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو آئین شکنی سے متعلق تحقیقات کی رپورٹ فراہم کرے۔
یہ حکم جج فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کو سماعت کے دوران دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس حکم پر عمل درآمد کو 14 مئی تک یقینی بنایا جائے تاکہ اس کے ایک ہفتے بعد شہادتیں ریکارڈ کرنے کا عمل شروع کیا جا سکے۔
پرویز مشرف کے وکلا کی طرف سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت آئین شکنی کی کارروائی سے متعلق نواز انتظامیہ کے احکامات پر کی جانے والی تحقیقات کی رپورٹ انہیں مہیا کی جائے تاکہ وہ اپنے موکل کے خلاف لگائے گئے الزامات کا بھرپور انداز میں دفاع کر سکیں۔
فوج کے سابق سربراہ پر الزام ہے کہ انہوں نے نومبر 2007ء میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور کئی ججوں کی نظربندی کے احکامات جاری کیے۔
پرویز مشرف عدالت میں ان الزامات کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ 2007ء کے تمام اقدامات اس وقت کے سیاسی اور فوجی رہنماؤں کی مشاورت سے کیے گئے تھے۔ وہ کہتے آئے ہیں کہ صرف ان کے خلاف عدالتی کارروائی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
سابق فوجی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج اپنے سابق سربراہ کے خلاف اس کارروائی پر نالاں ہے۔
نواز انتظامیہ کا موقف ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی سپریم کورٹ کے احکامات پر شروع کی گئی اور اس کے پیچھے ’’کوئی ذاتی و سیاسی عناد‘‘ نہیں۔
یہ حکم جج فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کو سماعت کے دوران دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس حکم پر عمل درآمد کو 14 مئی تک یقینی بنایا جائے تاکہ اس کے ایک ہفتے بعد شہادتیں ریکارڈ کرنے کا عمل شروع کیا جا سکے۔
پرویز مشرف کے وکلا کی طرف سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت آئین شکنی کی کارروائی سے متعلق نواز انتظامیہ کے احکامات پر کی جانے والی تحقیقات کی رپورٹ انہیں مہیا کی جائے تاکہ وہ اپنے موکل کے خلاف لگائے گئے الزامات کا بھرپور انداز میں دفاع کر سکیں۔
فوج کے سابق سربراہ پر الزام ہے کہ انہوں نے نومبر 2007ء میں آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور کئی ججوں کی نظربندی کے احکامات جاری کیے۔
پرویز مشرف عدالت میں ان الزامات کو مسترد کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ 2007ء کے تمام اقدامات اس وقت کے سیاسی اور فوجی رہنماؤں کی مشاورت سے کیے گئے تھے۔ وہ کہتے آئے ہیں کہ صرف ان کے خلاف عدالتی کارروائی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔
سابق فوجی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج اپنے سابق سربراہ کے خلاف اس کارروائی پر نالاں ہے۔
نواز انتظامیہ کا موقف ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کی کارروائی سپریم کورٹ کے احکامات پر شروع کی گئی اور اس کے پیچھے ’’کوئی ذاتی و سیاسی عناد‘‘ نہیں۔