پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو پہلے نظرثانی کی اپیل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے سپریم کورٹ میں دائر ایک نئی درخواست میں کہا ہے کہ ان کے خلاف عدالت عظمیٰ کے 2009ء کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل پر سماعت ابھی ہونا باقی ہے اس لیے عدالت ان کے موکل کے خلاف غداری سے متعلق خصوصی عدالت کی کارروائی کو روکنے کا حکم جاری کرے۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے جولائی 2009ء میں فیصلہ سناتے ہوئے سابق فوجی صدر کو غاصب قرار دیا اور وفاقی حکومت کو ان کے خلاف 2007ء میں آئین توڑ کر ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات پرغداری کی کارروائی شروع کرنے کا کہا تھا۔
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو پہلے نظرثانی کی اپیل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
’’وہ فیصلہ خصوصی عدالت کے سامنے اس (حکومت کی) کمپلین کی بنیاد ہے۔ ٹرائیل چلتا رہا اور اگر سپریم کورٹ بعد میں کہہ دے کہ اس فیصلے میں جنرل مشرف کے خلاف جو پڑھا یا لکھا گیا وہ غلط ہے اور آئین کے منافی ہے تو یہ سارے کا سارا کیس تاش کے پتوں کی طرح نیچے جا گرے گا۔‘‘
اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے فوج کے سابق سربراہ کو جمعرات کو غداری کے مقدمے کی سماعت میں پیش ہونے کے احکامات جاری کر رکھے ہیں اور استغاثہ کا اصرار رہا ہے کہ پرویز مشرف پر جلد سے جلد فرد جرم عائد کی جائے۔
پرویز مشرف خصوصی عدالت کے ججوں اور اس سماعت سے متعلق عدالت کے دائر اختیار پر اعتراضات اٹھا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی صرف فوجی عدالت کر سکتی ہے جبکہ خصوصی عدالت کے جج پرویز مشرف کے بقول ان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔
استغاثہ کے ایک وکیل طارق حسن کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت خصوصی عدالت کو کام کرنے سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے عبوری احکامات پر شروع کی گئی ہے۔
’’اسپیشل کورٹ ایکٹ کہتا ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر ہی اپیل ہو سکتی ہے۔ 2009ء کی ججمنٹ پر نظرثانی کی اپیل کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ سائیڈ دونوں حربے استعمال کررہی ہے۔ انہوں نے پہلے فوج کو اکسانے کی کوشش کی اور اب سیاستدانوں کو۔ وہ عدالت کے کمرے سے باہر جنگ لڑرہے ہیں۔ عدالت میں لڑے نا۔‘‘
پرویز مشرف یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی فوج ان کے خلاف اس مقدمے پر نالاں ہیں اور انہیں اس پر فوج کی حمایت حاصل ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے صرف پرویز مشرف ہی کے خلاف مبینہ آئین شکنی کی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 1999ء میں نواز شریف حکومت گرانے کے واقعے کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے۔
حکومت کے عہدیداروں کہتے ہیں کہ فوج کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی آئین کے تحت اور سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کی گئی ہے۔
پرویز مشرف ایک ہفتے سے زائد عرصے سے راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال میں داخل ہیں اور ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کی صحت بہتر ہونے اور ڈاکٹروں کی اجازت پر ہی وہ خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوسکیں گے۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سپریم کورٹ نے جولائی 2009ء میں فیصلہ سناتے ہوئے سابق فوجی صدر کو غاصب قرار دیا اور وفاقی حکومت کو ان کے خلاف 2007ء میں آئین توڑ کر ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات پرغداری کی کارروائی شروع کرنے کا کہا تھا۔
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو پہلے نظرثانی کی اپیل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
’’وہ فیصلہ خصوصی عدالت کے سامنے اس (حکومت کی) کمپلین کی بنیاد ہے۔ ٹرائیل چلتا رہا اور اگر سپریم کورٹ بعد میں کہہ دے کہ اس فیصلے میں جنرل مشرف کے خلاف جو پڑھا یا لکھا گیا وہ غلط ہے اور آئین کے منافی ہے تو یہ سارے کا سارا کیس تاش کے پتوں کی طرح نیچے جا گرے گا۔‘‘
اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں پر مشتمل خصوصی عدالت نے فوج کے سابق سربراہ کو جمعرات کو غداری کے مقدمے کی سماعت میں پیش ہونے کے احکامات جاری کر رکھے ہیں اور استغاثہ کا اصرار رہا ہے کہ پرویز مشرف پر جلد سے جلد فرد جرم عائد کی جائے۔
پرویز مشرف خصوصی عدالت کے ججوں اور اس سماعت سے متعلق عدالت کے دائر اختیار پر اعتراضات اٹھا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی صرف فوجی عدالت کر سکتی ہے جبکہ خصوصی عدالت کے جج پرویز مشرف کے بقول ان کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔
استغاثہ کے ایک وکیل طارق حسن کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت خصوصی عدالت کو کام کرنے سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے عبوری احکامات پر شروع کی گئی ہے۔
’’اسپیشل کورٹ ایکٹ کہتا ہے کہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر ہی اپیل ہو سکتی ہے۔ 2009ء کی ججمنٹ پر نظرثانی کی اپیل کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ سائیڈ دونوں حربے استعمال کررہی ہے۔ انہوں نے پہلے فوج کو اکسانے کی کوشش کی اور اب سیاستدانوں کو۔ وہ عدالت کے کمرے سے باہر جنگ لڑرہے ہیں۔ عدالت میں لڑے نا۔‘‘
پرویز مشرف یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی فوج ان کے خلاف اس مقدمے پر نالاں ہیں اور انہیں اس پر فوج کی حمایت حاصل ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے صرف پرویز مشرف ہی کے خلاف مبینہ آئین شکنی کی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 1999ء میں نواز شریف حکومت گرانے کے واقعے کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے۔
حکومت کے عہدیداروں کہتے ہیں کہ فوج کے سابق سربراہ کے خلاف کارروائی آئین کے تحت اور سپریم کورٹ کے حکم پر شروع کی گئی ہے۔
پرویز مشرف ایک ہفتے سے زائد عرصے سے راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال میں داخل ہیں اور ان کے وکلاء کا کہنا ہے کہ ان کی صحت بہتر ہونے اور ڈاکٹروں کی اجازت پر ہی وہ خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوسکیں گے۔