پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پرویز مشرف کو خدشہ ہے کہ خصوصی عدالت ان کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی کارروائی شفاف انداز میں نہیں چلائے گی۔
اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے حکومت کی طرف سے اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے قائم کردہ خصوصی عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی اس عدالت کو کارروائی کے آغاز سے روکا جائے۔
سابق صدر کی طرف سے ہفتہ کو دائر کی جانے والی درخواست میں یہ موقف اخیتار کیا گیا کہ ان کے خلاف کسی بھی کارروائی کا اختیار صرف فوجی ٹرابیونل کو ہی حاصل ہے۔
پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پرویز مشرف کو خدشہ ہے کہ خصوصی عدالت ان کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی کارروائی شفاف انداز میں نہیں چلائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت حاضر سروس کے علاوہ سابق فوجی کے خلاف کارروائی بھی فوجی عدالت ہی کر سکتی ہے اس لیے پرویز مشرف کی استدعا ہے کہ ان کے خلاف الزامات کی شنوائی وہیں ہو۔
’’ان کی خواہش ہے کہ میرے استحقاق کے مطابق اُن کے خلاف عدالتی کارروائی ہو اور میرے لوگ مجھے سزا دیں اگر دینی ہے۔‘‘
ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے سے پہلے پرویز مشرف اقوام متحدہ سے بھی اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اُن کے خلاف خصوصی عدالت کی کارروائی روکی جائے۔
ان کے وکیل نے اس کی اپیل کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایک تاثر یہ ہے کہ پرویز مشرف کے اقتدار کے ختم ہونے کے بعد کئی حکومتوں نے اس طرح کی کارروائی نہیں کی اور اب ’’ اس مقدمے کو (موجودہ) حکومت نے اٹھایا ہے۔‘‘
پرویز مشرف پر الزامات ہیں کہ انھوں نے نومبر 2007ء میں آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا اور سپریم کورٹ سمیت اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے۔
خالد رانجھا نے کہا کہ نواز شریف حکومت کی اس مقدمے کو شروع کرنے کے پیچھے ’’بد نیتی‘‘ شامل ہے کیونکہ صرف ان کے موکل کو نومبر 2007ء کے اقدامات پر مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے جب کہ ’’انھوں نے اس وقت کے وزیراعظم کی ہدایت ہر تمام کور کمانڈرز سے مشاورت کے بعد (ایمرجنسی کے نفاذ) فیصلہ کیا تھا۔‘‘
انھوں کہا کہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کا یہ بھی استحقاق ہے کہ اس عمل میں ملوث دیگر تمام افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات پر فوج کے سابق سربراہ کے خلاف آئین توڑنے پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے ایک تین رکنی خصوصی عدالت قائم کی ہے جس نے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کر رکھا ہے۔
خالد رانجھا نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور اس میں شامل ججوں پر بھی اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ عمل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ’’مشاورت‘‘ سے کیا گیا جو کہ خود پرویز مشرف کے فیصلوں کے متاثرین میں سے ہیں جب کہ خصوصی عدالت کے دو جج ان کے موکل کے خلاف مضامین لکھتے رہے ہیں۔
سابق صدر لگ بھگ چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے بعد رواں سال مارچ میں عام انتخابات میں اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کے لیے وطن واپس آئے تھے لیکن اُن کے خلاف قائم مختلف مقدمات کے باعث پرویز مشرف کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
پرویز مشرف کا نام اب بھی 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' میں شامل ہے جس کے باعث وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔
سابق صدر کی طرف سے ہفتہ کو دائر کی جانے والی درخواست میں یہ موقف اخیتار کیا گیا کہ ان کے خلاف کسی بھی کارروائی کا اختیار صرف فوجی ٹرابیونل کو ہی حاصل ہے۔
پرویز مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پرویز مشرف کو خدشہ ہے کہ خصوصی عدالت ان کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی کارروائی شفاف انداز میں نہیں چلائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت حاضر سروس کے علاوہ سابق فوجی کے خلاف کارروائی بھی فوجی عدالت ہی کر سکتی ہے اس لیے پرویز مشرف کی استدعا ہے کہ ان کے خلاف الزامات کی شنوائی وہیں ہو۔
’’ان کی خواہش ہے کہ میرے استحقاق کے مطابق اُن کے خلاف عدالتی کارروائی ہو اور میرے لوگ مجھے سزا دیں اگر دینی ہے۔‘‘
ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے سے پہلے پرویز مشرف اقوام متحدہ سے بھی اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اُن کے خلاف خصوصی عدالت کی کارروائی روکی جائے۔
ان کے وکیل نے اس کی اپیل کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایک تاثر یہ ہے کہ پرویز مشرف کے اقتدار کے ختم ہونے کے بعد کئی حکومتوں نے اس طرح کی کارروائی نہیں کی اور اب ’’ اس مقدمے کو (موجودہ) حکومت نے اٹھایا ہے۔‘‘
پرویز مشرف پر الزامات ہیں کہ انھوں نے نومبر 2007ء میں آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا اور سپریم کورٹ سمیت اعلٰی عدلیہ کے ججوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے۔
خالد رانجھا نے کہا کہ نواز شریف حکومت کی اس مقدمے کو شروع کرنے کے پیچھے ’’بد نیتی‘‘ شامل ہے کیونکہ صرف ان کے موکل کو نومبر 2007ء کے اقدامات پر مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے جب کہ ’’انھوں نے اس وقت کے وزیراعظم کی ہدایت ہر تمام کور کمانڈرز سے مشاورت کے بعد (ایمرجنسی کے نفاذ) فیصلہ کیا تھا۔‘‘
انھوں کہا کہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف کا یہ بھی استحقاق ہے کہ اس عمل میں ملوث دیگر تمام افراد کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات پر فوج کے سابق سربراہ کے خلاف آئین توڑنے پر غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے ایک تین رکنی خصوصی عدالت قائم کی ہے جس نے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کر رکھا ہے۔
خالد رانجھا نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور اس میں شامل ججوں پر بھی اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ عمل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ’’مشاورت‘‘ سے کیا گیا جو کہ خود پرویز مشرف کے فیصلوں کے متاثرین میں سے ہیں جب کہ خصوصی عدالت کے دو جج ان کے موکل کے خلاف مضامین لکھتے رہے ہیں۔
سابق صدر لگ بھگ چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے بعد رواں سال مارچ میں عام انتخابات میں اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کے لیے وطن واپس آئے تھے لیکن اُن کے خلاف قائم مختلف مقدمات کے باعث پرویز مشرف کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
پرویز مشرف کا نام اب بھی 'ایگزٹ کنٹرول لسٹ' میں شامل ہے جس کے باعث وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔