سپریم کورٹ کے ایک نواز کھرل کا کہنا تھا کہ صرف پرویز مشرف کو ہی اس کارروائی میں نشانہ بنانے کا فیصلہ ان کے بقول ’’بد نیتی‘‘ پر مبنی ہو گا۔
اسلام آباد —
نواز شریف حکومت کی جانب سے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کرنے کے اعلان پر پاکستان میں قانون دانوں کی رائے منقسم ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ صرف ایک فرد کے خلاف آئین توڑنے کی کارروائی اس پورے عمل کو ’’غیر منصفانہ‘‘ بنا دے گی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سابق رکن رائے نواز کھرل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سابق فوجی سربراہ کے خلاف کارروائی سے مستقبل میں فوجی بغاوت کی حوصلہ شکنی ہوگی تاہم صرف پرویز مشرف کو ہی اس کارروائی میں نشانہ بنانے کا فیصلہ ان کے بقول ’’بد نیتی‘‘ پر مبنی ہوگا۔
’’یہ ایک شخص کا فعل نہیں ہوتا۔ اگر باقی لوگ انکار کر دیتے کہ یہ آپ کا غلط اقدام ہے، تو وہ (مشرف) کبھی یہ قدم نا اٹھاتے۔ تو اس کا مطلب ہے انھوں نے اس کا ساتھ دیا۔‘‘
وفاقی حکومت نے پیر کو سپریم کورٹ سے ایک درخواست میں استدعا کی کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے وہ اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں کا ٹرائبیونل تجویز کرے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور ججوں کی بحالی کے لیے وکلاء مہم کے ایک رہنما حامد خان نے حکومت کی اس درخواست کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائبیونل کی تشکیل حکومت کے دائرے اختیار میں ہے۔
’’ججوں کے چناؤ میں یہ (حکومت) احتیاط برتے تاکہ یہ کوئی نا کہہ سکے کہ وہ خود متاثرین ہیں ... بالکل ایسے جج موجود ہیں جو اس میں شامل نا تھے یا انھیں پابند سلاسل نہیں رکھا گیا۔ ان کا تقرر بعد میں ہوا۔‘‘
پرویز مشرف نے نومبر 2007ء میں آئین کو معطل کرک ے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کو نظر بند کرنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔
سابق فوجی سربراہ نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یہ فیصلہ انھوں نے چاروں صوبوں کے گورنروں کے علاوہ اعلیٰ سرکاری اور عسکری عہدیداروں کی مشاورت سے کیا۔
سابق وزیر قانون افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے پرویز مشرف کے مبینہ معاون کاروں کے نام مقدمے میں شامل نا کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
’’یہ ایک ایف آئی آر کی طرح ہے اب یہ حکومت کی مرضی ہے کہ وہ ایک کے خلاف کرتی ہے یا 20 کے۔ اگر حکومت نہیں کرتی تو پھر اس (پرویز مشرف) کو کہنا پڑے گا کہ میں نے اکیلے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اگر (وہ) نام ہی نا لے تو پھر اسی کو سزاء ہوگی۔‘‘
آئین پاکستان کے تحت آئین کو توڑنے والا اور اس اقدام میں اس کی معاونت کرنے والے غداری کے مرتب ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سابق رکن رائے نواز کھرل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سابق فوجی سربراہ کے خلاف کارروائی سے مستقبل میں فوجی بغاوت کی حوصلہ شکنی ہوگی تاہم صرف پرویز مشرف کو ہی اس کارروائی میں نشانہ بنانے کا فیصلہ ان کے بقول ’’بد نیتی‘‘ پر مبنی ہوگا۔
’’یہ ایک شخص کا فعل نہیں ہوتا۔ اگر باقی لوگ انکار کر دیتے کہ یہ آپ کا غلط اقدام ہے، تو وہ (مشرف) کبھی یہ قدم نا اٹھاتے۔ تو اس کا مطلب ہے انھوں نے اس کا ساتھ دیا۔‘‘
وفاقی حکومت نے پیر کو سپریم کورٹ سے ایک درخواست میں استدعا کی کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے وہ اعلیٰ عدلیہ کے تین ججوں کا ٹرائبیونل تجویز کرے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اور ججوں کی بحالی کے لیے وکلاء مہم کے ایک رہنما حامد خان نے حکومت کی اس درخواست کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائبیونل کی تشکیل حکومت کے دائرے اختیار میں ہے۔
’’ججوں کے چناؤ میں یہ (حکومت) احتیاط برتے تاکہ یہ کوئی نا کہہ سکے کہ وہ خود متاثرین ہیں ... بالکل ایسے جج موجود ہیں جو اس میں شامل نا تھے یا انھیں پابند سلاسل نہیں رکھا گیا۔ ان کا تقرر بعد میں ہوا۔‘‘
پرویز مشرف نے نومبر 2007ء میں آئین کو معطل کرک ے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کو نظر بند کرنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔
سابق فوجی سربراہ نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ یہ فیصلہ انھوں نے چاروں صوبوں کے گورنروں کے علاوہ اعلیٰ سرکاری اور عسکری عہدیداروں کی مشاورت سے کیا۔
سابق وزیر قانون افتخار گیلانی کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے پرویز مشرف کے مبینہ معاون کاروں کے نام مقدمے میں شامل نا کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
’’یہ ایک ایف آئی آر کی طرح ہے اب یہ حکومت کی مرضی ہے کہ وہ ایک کے خلاف کرتی ہے یا 20 کے۔ اگر حکومت نہیں کرتی تو پھر اس (پرویز مشرف) کو کہنا پڑے گا کہ میں نے اکیلے یہ فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اگر (وہ) نام ہی نا لے تو پھر اسی کو سزاء ہوگی۔‘‘
آئین پاکستان کے تحت آئین کو توڑنے والا اور اس اقدام میں اس کی معاونت کرنے والے غداری کے مرتب ہوتے ہیں۔