اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بتایا کہ سابق فوجی صدر کے خلاف غداری سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ادارے کی خصوصی ٹیم اپنا کام شروع کر چکی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلائے جانے کی درخواستیں نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ ’’غیر ضروری تاخیر کے بغیر‘‘ حکومت اس بارے میں تحقیقات مکمل کر کے عدالت میں پیش کردہ بیان کے مطابق آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرے۔
بدھ کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ لکھواتے ہوئے کہا کہ ’’احتیاط برتتے ہوئے اور دانستہ طور پر‘‘ عدالت نے آئین توڑنے یا اسے معطل کرنے یا پھر اس عمل میں شریک افراد کے مسئلے کو نہیں چھیڑا کیونکہ عدالت کی طرف سے اس بارے میں کسی بھی طرح کے مشاہدے کا اظہار تحقیقاتی عمل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
درخواست گزار وکلاء کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیے جانے کے باوجود اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کو تحقیقات کے مکمل ہونے کا کوئی ٹائم فریم دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کی تشکیل کردہ چار رکنی تحقیقاتی ٹیم پر منحصر ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف پر 2007ء میں آئین توڑ کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں غداری کا مقدمہ چلائے جانے کی متعدد درخواستیں عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی تھیں۔
سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل علی رضا کہتے ہیں کہ پاکستان کے سابق فوجی سربراہ کے خلاف غداری کی کارروائی کافی وقت لے گی۔
’’حکومت نے یہ تو نہیں کہا کہ پرویز مشرف پر جرم ثابت ہو گیا ہے۔ ابھی تو تحقیقات کی بات ہورہی ہے۔ تحقیقات ہوگی۔ اس کے بعد فیصلہ ہوگا کہ آیا مقدمہ چلایا جائے۔ اگر چلایا بھی جائے تو کن الزامات کے تحت اور اس متعلق کون سے شواہد موجود ہیں۔ پھر کون استغاثہ بنے گا؟ ابھی بہت عمل باقی ہے مگر لوگ ابھی سے قیاس آرئیاں کررہے ہیں۔‘‘
علی رضا کا کہنا تھا کہ عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کے آئین توڑنے کے عمل میں شریک افراد کی نشاندہی سے یہ پورا عمل غیر جانبدار نہیں رہتا۔
’’ابھی تو طے ہونا ہے کہ کون ساتھی یا معاون تھے کیونکہ آپ کسی کو صرف اس بناء پر کہ وہ اس وقت کسی عہدے پر تھا اس عمل میں شریک ثابت نہیں کرسکتے۔‘‘
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں گزشتہ ماہ حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ غداری کی کارروائی پرویز مشرف اور 2007 میں مبینہ طور پر آئین توڑنے کے عمل میں ان کا ساتھ دینے والے فوجی اور سرکاری عہدیداروں اور سیاسی شخصیات کے خلاف شروع کی جائے گی۔
پرویز مشرف موجودہ عدلیہ اور میاں نواز شریف کی حکومت کے تحت اپنے خلاف ہونے والی کارروائی پر عدم تحفظ کا اظہار کر چکے ہیں۔ تاہم بظاہر ان کے وکلاء کی جانب سے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے حکومت کو کوئی ہدایت جاری نہیں کی۔
ایک درخوست گزار محمد اکرام چوہدری کہتے ہیں کہ پرویز مشرف آئین کوڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
’’پاکستان بار کونسل اور سینٹ نے اس پر قراردادیں منظور کی ہیں اور وزارت قانون کو خطوط لکھے گئے کہ آپ اس سلسلے میں پیش رفت کریں۔ پرویز مشرف کے اقدام آئین کے آرٹیکل چھ کے زمرے میں آتے ہیں۔‘‘
ملکی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سابق صدر اور فوجی سربراہ کے خلاف غداری کے مقدمے کی کارروائی ہونے جارہی ہے۔ علاوہ ازیں پرویز مشرف کو سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل اور ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔
بدھ کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے فیصلہ لکھواتے ہوئے کہا کہ ’’احتیاط برتتے ہوئے اور دانستہ طور پر‘‘ عدالت نے آئین توڑنے یا اسے معطل کرنے یا پھر اس عمل میں شریک افراد کے مسئلے کو نہیں چھیڑا کیونکہ عدالت کی طرف سے اس بارے میں کسی بھی طرح کے مشاہدے کا اظہار تحقیقاتی عمل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
درخواست گزار وکلاء کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیے جانے کے باوجود اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کو تحقیقات کے مکمل ہونے کا کوئی ٹائم فریم دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کی تشکیل کردہ چار رکنی تحقیقاتی ٹیم پر منحصر ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف پر 2007ء میں آئین توڑ کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزام میں غداری کا مقدمہ چلائے جانے کی متعدد درخواستیں عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی تھیں۔
سپریم کورٹ کے سینئیر وکیل علی رضا کہتے ہیں کہ پاکستان کے سابق فوجی سربراہ کے خلاف غداری کی کارروائی کافی وقت لے گی۔
’’حکومت نے یہ تو نہیں کہا کہ پرویز مشرف پر جرم ثابت ہو گیا ہے۔ ابھی تو تحقیقات کی بات ہورہی ہے۔ تحقیقات ہوگی۔ اس کے بعد فیصلہ ہوگا کہ آیا مقدمہ چلایا جائے۔ اگر چلایا بھی جائے تو کن الزامات کے تحت اور اس متعلق کون سے شواہد موجود ہیں۔ پھر کون استغاثہ بنے گا؟ ابھی بہت عمل باقی ہے مگر لوگ ابھی سے قیاس آرئیاں کررہے ہیں۔‘‘
علی رضا کا کہنا تھا کہ عدالت کی طرف سے پرویز مشرف کے آئین توڑنے کے عمل میں شریک افراد کی نشاندہی سے یہ پورا عمل غیر جانبدار نہیں رہتا۔
’’ابھی تو طے ہونا ہے کہ کون ساتھی یا معاون تھے کیونکہ آپ کسی کو صرف اس بناء پر کہ وہ اس وقت کسی عہدے پر تھا اس عمل میں شریک ثابت نہیں کرسکتے۔‘‘
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں گزشتہ ماہ حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ غداری کی کارروائی پرویز مشرف اور 2007 میں مبینہ طور پر آئین توڑنے کے عمل میں ان کا ساتھ دینے والے فوجی اور سرکاری عہدیداروں اور سیاسی شخصیات کے خلاف شروع کی جائے گی۔
پرویز مشرف موجودہ عدلیہ اور میاں نواز شریف کی حکومت کے تحت اپنے خلاف ہونے والی کارروائی پر عدم تحفظ کا اظہار کر چکے ہیں۔ تاہم بظاہر ان کے وکلاء کی جانب سے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے حکومت کو کوئی ہدایت جاری نہیں کی۔
ایک درخوست گزار محمد اکرام چوہدری کہتے ہیں کہ پرویز مشرف آئین کوڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
’’پاکستان بار کونسل اور سینٹ نے اس پر قراردادیں منظور کی ہیں اور وزارت قانون کو خطوط لکھے گئے کہ آپ اس سلسلے میں پیش رفت کریں۔ پرویز مشرف کے اقدام آئین کے آرٹیکل چھ کے زمرے میں آتے ہیں۔‘‘
ملکی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سابق صدر اور فوجی سربراہ کے خلاف غداری کے مقدمے کی کارروائی ہونے جارہی ہے۔ علاوہ ازیں پرویز مشرف کو سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل اور ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔