اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو ہدایت کی کہ وہ ہارون رشید کا موقف سنے اور اگر اس میں سابق صدر پر کوئی جرم بنتا ہے تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی ایک عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف لال مسجد کیس میں ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی ہے۔
جولائی 2007ء میں اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد میں مشتبہ دہشت گردوں کی موجودگی پر جب حکومت نے فوجی کارروائی کا حکم دیا تھا تو اس وقت پرویز مشرف ملک کے صدر تھے۔
اس کارروائی میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت کم ازکم ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس آپریشن میں ہلاک ہونے والے مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی کے بیٹے ہارون رشید نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے اس کارروائی کا حکم دیا تھا جس میں خواتین سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
جمعہ کو عدالت عالیہ کے جسٹس نورالحق قریشی نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی کہ وہ ہارون رشید کا موقف سنے اور اگر اس میں سابق صدر پر کوئی جرم بنتا ہے تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2007ء میں آپریشن کے بعد ان کے موکل نے متعلقہ تھانے میں پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
پرویز مشرف چار سالہ خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے رواں سال مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے اور یہاں انھیں متعدد مقدمات کا سامنا ہے۔
ان دنوں وہ اسلام آباد میں واقع اپنی رہائش گاہ پر قید ہیں جسے سب جیل قرار دیا گیا ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو قتل کیس، بزرگ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کیس کے علاوہ ملک میں آئین معطل کر کے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات میں مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
نومبر 2007ء میں آئین توڑنے کی پاداش میں سابق فوجی صدر پر غداری کا مقدمہ چلائے جانے کی درخواستیں بھی عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت تھیں جنہیں نمٹاتے ہوئے سپریم کورٹ نے وفاق کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس ضمن میں تحقیقات مکمل کرکے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرے۔
حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو مشرف کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرے گی۔
جولائی 2007ء میں اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد میں مشتبہ دہشت گردوں کی موجودگی پر جب حکومت نے فوجی کارروائی کا حکم دیا تھا تو اس وقت پرویز مشرف ملک کے صدر تھے۔
اس کارروائی میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت کم ازکم ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اس آپریشن میں ہلاک ہونے والے مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی کے بیٹے ہارون رشید نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے اس کارروائی کا حکم دیا تھا جس میں خواتین سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
جمعہ کو عدالت عالیہ کے جسٹس نورالحق قریشی نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی کہ وہ ہارون رشید کا موقف سنے اور اگر اس میں سابق صدر پر کوئی جرم بنتا ہے تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 2007ء میں آپریشن کے بعد ان کے موکل نے متعلقہ تھانے میں پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دی تھی لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
پرویز مشرف چار سالہ خودساختہ جلاوطنی ختم کر کے رواں سال مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے اور یہاں انھیں متعدد مقدمات کا سامنا ہے۔
ان دنوں وہ اسلام آباد میں واقع اپنی رہائش گاہ پر قید ہیں جسے سب جیل قرار دیا گیا ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو قتل کیس، بزرگ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کیس کے علاوہ ملک میں آئین معطل کر کے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات میں مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
نومبر 2007ء میں آئین توڑنے کی پاداش میں سابق فوجی صدر پر غداری کا مقدمہ چلائے جانے کی درخواستیں بھی عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت تھیں جنہیں نمٹاتے ہوئے سپریم کورٹ نے وفاق کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس ضمن میں تحقیقات مکمل کرکے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرے۔
حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو مشرف کے خلاف الزامات کی تحقیقات کرے گی۔