منگل کو درخواست کی سماعت کے شروع ہوتے ہی جج شوکت صدیقی نے کمرہ عدالت میں آکر بتایا کہ وہ اس عدالتی کارروائی سے علیحدہ ہورہے ہیں کیونکہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں ان کے خلاف ’’مہم‘‘ چلائی گئی۔
اسلام آباد —
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے منگل کو ججوں کی نظر بندی کیس میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی ضمانت پر رہائی کی درخواست کی شنوائی سے معذرت کرلی۔
منگل کو درخواست کی سماعت کے شروع ہوتے ہی جج شوکت صدیقی نے کمرہ عدالت میں آکر بتایا کہ وہ اس عدالتی کارروائی سے علیحدہ ہورہے ہیں کیونکہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں ان کے خلاف ’’مہم‘‘ چلائی گئی۔ تاہم انہوں نے اس مبینہ مہم کی نوعیت یا مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
ضمانت کی درخواست سماعت ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ کر رہا ہے۔ مگر اس پیش رفت کے بعد یہ بینچ ٹوٹ گیا اور نئے بینچ کی تشکیل کا فیصلہ اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس بدھ تک کریں گے۔
سابق صدر پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے علاوہ ملک بھر میں اعلٰی عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرنے کے احکامات جاری کیے۔
مارچ میں چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے ملک واپس آنے پر جسٹس صدیقی نے ججوں کی نظر بندی کیس میں پرویز مشرف کی عبوری ضمانت کو منسوخ کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمے میں انسداد دہشت گردی کے قانون کی شقیں بھی شامل کی جائیں۔
تاہم پرویز مشرف کے وکیل الیاس صدیقی نے سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جج کا یہ حکم درست نا تھا۔
’’صدر کبھی دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ پرویز مشرف نے احکامات وزیراعظم کی سفارش پر دیے اور آئین کے تحت وزیراعظم کی تجویز پر عمل کرنا ان پر لازم تھا۔ پھر اس کے بعد آنے والی پارلیمنٹ نے بھی ان کا محاسبہ نہیں کیا۔ بس جج نے آئین پڑھے بغیر حکم جاری کیا۔‘‘
پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ جج کی ہدایت پر ان کے موکل کے خلاف چارج شیٹ میں شامل قانونی شقیں ناقابل ضمانت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف کی ضمانت پر رہائی اب ممکن ہے اگر نیا بننے والا بینچ میرٹ پر فیصلہ کرے۔
گزشتہ ماہ اس مقدمے کے واحد مدعی اسلم گھمن نے اس مقدمے کی پیروی سے انکار کیا تھا۔ یہ فیصلہ اسلم گھمن کے بقول انہوں نے متوقع وزیراعظم نواز شریف کے پرویز مشرف سے متعلق مفاہمتی رویے کی وجہ سے کیا۔
پرویز مشرف کے خلاف 2007ء میں ملک کے آئین کو مبینہ طور پر توڑ کر ایمرجنسی نافذ کرنے پر غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواستیں بھی زیر سماعت ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت صرف وفاقی حکومت ہی کسی بھی شخص کے خلاف غداری کا مقدمہ چلا سکتی ہے۔
میاں نواز شریف کے ساتھی طارق عظیم کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ابھی تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
مزید برآں سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات کا سامنا ہے۔ تاہم بے نظیر قتل کیس میں پہلے ہی ان کی ضمانت پر رہائی کی درخواست منظور ہو چکی ہے۔
منگل کو درخواست کی سماعت کے شروع ہوتے ہی جج شوکت صدیقی نے کمرہ عدالت میں آکر بتایا کہ وہ اس عدالتی کارروائی سے علیحدہ ہورہے ہیں کیونکہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں ان کے خلاف ’’مہم‘‘ چلائی گئی۔ تاہم انہوں نے اس مبینہ مہم کی نوعیت یا مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
ضمانت کی درخواست سماعت ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ کر رہا ہے۔ مگر اس پیش رفت کے بعد یہ بینچ ٹوٹ گیا اور نئے بینچ کی تشکیل کا فیصلہ اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس بدھ تک کریں گے۔
سابق صدر پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے علاوہ ملک بھر میں اعلٰی عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کرنے کے احکامات جاری کیے۔
مارچ میں چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے ملک واپس آنے پر جسٹس صدیقی نے ججوں کی نظر بندی کیس میں پرویز مشرف کی عبوری ضمانت کو منسوخ کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمے میں انسداد دہشت گردی کے قانون کی شقیں بھی شامل کی جائیں۔
تاہم پرویز مشرف کے وکیل الیاس صدیقی نے سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جج کا یہ حکم درست نا تھا۔
’’صدر کبھی دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ پرویز مشرف نے احکامات وزیراعظم کی سفارش پر دیے اور آئین کے تحت وزیراعظم کی تجویز پر عمل کرنا ان پر لازم تھا۔ پھر اس کے بعد آنے والی پارلیمنٹ نے بھی ان کا محاسبہ نہیں کیا۔ بس جج نے آئین پڑھے بغیر حکم جاری کیا۔‘‘
پرویز مشرف کے وکیل کا کہنا تھا کہ جج کی ہدایت پر ان کے موکل کے خلاف چارج شیٹ میں شامل قانونی شقیں ناقابل ضمانت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف کی ضمانت پر رہائی اب ممکن ہے اگر نیا بننے والا بینچ میرٹ پر فیصلہ کرے۔
گزشتہ ماہ اس مقدمے کے واحد مدعی اسلم گھمن نے اس مقدمے کی پیروی سے انکار کیا تھا۔ یہ فیصلہ اسلم گھمن کے بقول انہوں نے متوقع وزیراعظم نواز شریف کے پرویز مشرف سے متعلق مفاہمتی رویے کی وجہ سے کیا۔
پرویز مشرف کے خلاف 2007ء میں ملک کے آئین کو مبینہ طور پر توڑ کر ایمرجنسی نافذ کرنے پر غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواستیں بھی زیر سماعت ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت صرف وفاقی حکومت ہی کسی بھی شخص کے خلاف غداری کا مقدمہ چلا سکتی ہے۔
میاں نواز شریف کے ساتھی طارق عظیم کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ابھی تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
مزید برآں سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات کا سامنا ہے۔ تاہم بے نظیر قتل کیس میں پہلے ہی ان کی ضمانت پر رہائی کی درخواست منظور ہو چکی ہے۔