مبصرین اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدامات پر صرف سابق صدر کے خلاف کارروائی سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔
اسلام آباد —
وزیراعظم نواز شریف حکومت نے جمعرات کو خصوصی عدالت کو باقاعدہ ایک درخوست کے ذریعے استدعا کی کہ پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔
خصوصی عدالت کے رجسٹرار عبدالغنی سومرو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزارت داخلہ کے سیکرٹری نے درخوست ان کے دفتر میں جمع کروائی جس کے ساتھ گواہان کی فہرست اور مقدمے سے متعلق ضروری دستاویزات بھی شامل ہیں۔
’’ان کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد ہی خصوصی عدالت کے سربراہ کو آگاہ کیا جائے گا جو کہ پھر متعلقہ افراد کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیں گے۔‘‘
تاہم انہوں نے مزید تفصیلات بیان کرنے سے اجتناب کیا۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے حکومت نے ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت کے قیام کے ساتھ ساتھ استغاثہ کا ایک پینل بھی تشکیل دیا تھا۔
وزارت داخلہ کے عہدیداروں کے مطابق حکومت نے عدالت سے درخواست کی کہ سابق جنرل نے نومبر 2007ء کو آئین توڑا جو کہ آئین کے آرٹیکل 6 کی زد میں آتا ہے لہذا ان کے خلاف غداری کی کارروائی شروع کی جائے۔
پرویز مشرف پر الزامات ہیں کہ انہوں نے آئین توڑتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے تھے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ باضابطہ عدالتی کارروائی شروع ہونے کے وقت کے بارے میں فی الحال نہیں کہا جا سکتا۔
پرویز مشرف پر الزامات ہیں کہ انہوں نے آئین توڑتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے تھے۔
مبصرین اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدامات پر صرف سابق صدر کے خلاف کارروائی سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔
سپریم کورٹ بار ایسویشن کے صدر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ اس کارروائی میں بھی انصاف ہوتا دکھائی دینا لازمی ہے۔
’’ہمارے یہاں پارلیمانی نظام میں صدر وزیراعظم کی ہدایت پر کوئی قدم اٹھاتا ہے اور خود اس ایمرجنسی کے حکم میں کہا گیا ہے کہ میں نے فلاں فلاں سے مشورہ لیا۔ تو اس قانونی سقم کا تدارک ہونا چاہئے۔‘‘
پرویز مشرف نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنی تقریر میں بھی کہا تھا کہ یہ قدم وزیراعظم سمیت دیگر کئی فوجی اور سرکاری اعلیٰ افسران کی مشاورت کے بعد لیا جارہا ہے۔
توقع کی جارہی ہے کہ پرویز مشرف کے وکلاء خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہو کر اس کے قیام کے طرقہ کار اور ممبر ججوں سے متعلق ان کے بقول شدید نوعیت کے اعتراضات اٹھائیں گے۔
سابق فوجی سربراہ کے ایک وکیل اور سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا کا کہنا تھا۔ ’’اگر ان ججوں کے سامنے وہ اعتراضات پیش کریں تو شاید وہ خود اس بنچ سے علیحدہ ہوجائیں۔ خاتون جج کے بارے میں تو کچھ نہیں مگر باقی دو (مرد) ججوں کے بارے میں الزامات ہیں کہ وہ تو پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل لکھتے رہے ہیں۔ ان (پرویز مشرف) کے پاس ان دو ججوں کے بارے میں کافی کچح ہے کہنے کے لیے۔‘‘
بعض سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 1999 میں آئین معطل کرکے نواز شریف حکومت گرانے کے پرویز مشرف کے عمل کو بھی اس عدالتی کارروائی کا حصہ بنانا چاہئے تاہم کامران مرتضیٰ کہتے ہیں۔
’’1999ء پر جاتے ہیں تو لوگ کہیں گے اس سے پہلی ایوب، یحییٰ اور سکندر مرزا پر بھی جائیں۔ سب کو قبروں سے نکا کر پھانسی دیں (گو کہ) اس کی مثالیں بھی ہیں۔ تو یہ ممکن نہیں ہے۔ تو بہتر دلیل ہے کہ اس سے پہلے ایسے اقدامات کو پارلیمان نے جائز قرار دیا تھا اس لیے اسے معاف کرتے ہوئے آگے چلنا چاہئے۔‘‘
نواز شریف حکومت برطرف کرنے کے عمل کو اس وقت کی عدالت عظمیٰ نے نا صرف جائز قرار دیا بلکہ سابق فوجی سربراہ کو آئین میں ترمیم کرنے کی بھی اجازت دے دی تھی۔
خصوصی عدالت کے رجسٹرار عبدالغنی سومرو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزارت داخلہ کے سیکرٹری نے درخوست ان کے دفتر میں جمع کروائی جس کے ساتھ گواہان کی فہرست اور مقدمے سے متعلق ضروری دستاویزات بھی شامل ہیں۔
’’ان کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد ہی خصوصی عدالت کے سربراہ کو آگاہ کیا جائے گا جو کہ پھر متعلقہ افراد کو نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیں گے۔‘‘
تاہم انہوں نے مزید تفصیلات بیان کرنے سے اجتناب کیا۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے حکومت نے ہائی کورٹ کے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت کے قیام کے ساتھ ساتھ استغاثہ کا ایک پینل بھی تشکیل دیا تھا۔
وزارت داخلہ کے عہدیداروں کے مطابق حکومت نے عدالت سے درخواست کی کہ سابق جنرل نے نومبر 2007ء کو آئین توڑا جو کہ آئین کے آرٹیکل 6 کی زد میں آتا ہے لہذا ان کے خلاف غداری کی کارروائی شروع کی جائے۔
پرویز مشرف پر الزامات ہیں کہ انہوں نے آئین توڑتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے تھے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ باضابطہ عدالتی کارروائی شروع ہونے کے وقت کے بارے میں فی الحال نہیں کہا جا سکتا۔
پرویز مشرف پر الزامات ہیں کہ انہوں نے آئین توڑتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور سپریم کورٹ سمیت اعلیٰ عدلیہ کے درجنوں ججوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے تھے۔
مبصرین اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نومبر 2007ء کے غیر آئینی اقدامات پر صرف سابق صدر کے خلاف کارروائی سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔
سپریم کورٹ بار ایسویشن کے صدر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ اس کارروائی میں بھی انصاف ہوتا دکھائی دینا لازمی ہے۔
’’ہمارے یہاں پارلیمانی نظام میں صدر وزیراعظم کی ہدایت پر کوئی قدم اٹھاتا ہے اور خود اس ایمرجنسی کے حکم میں کہا گیا ہے کہ میں نے فلاں فلاں سے مشورہ لیا۔ تو اس قانونی سقم کا تدارک ہونا چاہئے۔‘‘
پرویز مشرف نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنی تقریر میں بھی کہا تھا کہ یہ قدم وزیراعظم سمیت دیگر کئی فوجی اور سرکاری اعلیٰ افسران کی مشاورت کے بعد لیا جارہا ہے۔
توقع کی جارہی ہے کہ پرویز مشرف کے وکلاء خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہو کر اس کے قیام کے طرقہ کار اور ممبر ججوں سے متعلق ان کے بقول شدید نوعیت کے اعتراضات اٹھائیں گے۔
سابق فوجی سربراہ کے ایک وکیل اور سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا کا کہنا تھا۔ ’’اگر ان ججوں کے سامنے وہ اعتراضات پیش کریں تو شاید وہ خود اس بنچ سے علیحدہ ہوجائیں۔ خاتون جج کے بارے میں تو کچھ نہیں مگر باقی دو (مرد) ججوں کے بارے میں الزامات ہیں کہ وہ تو پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل لکھتے رہے ہیں۔ ان (پرویز مشرف) کے پاس ان دو ججوں کے بارے میں کافی کچح ہے کہنے کے لیے۔‘‘
بعض سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 1999 میں آئین معطل کرکے نواز شریف حکومت گرانے کے پرویز مشرف کے عمل کو بھی اس عدالتی کارروائی کا حصہ بنانا چاہئے تاہم کامران مرتضیٰ کہتے ہیں۔
’’1999ء پر جاتے ہیں تو لوگ کہیں گے اس سے پہلی ایوب، یحییٰ اور سکندر مرزا پر بھی جائیں۔ سب کو قبروں سے نکا کر پھانسی دیں (گو کہ) اس کی مثالیں بھی ہیں۔ تو یہ ممکن نہیں ہے۔ تو بہتر دلیل ہے کہ اس سے پہلے ایسے اقدامات کو پارلیمان نے جائز قرار دیا تھا اس لیے اسے معاف کرتے ہوئے آگے چلنا چاہئے۔‘‘
نواز شریف حکومت برطرف کرنے کے عمل کو اس وقت کی عدالت عظمیٰ نے نا صرف جائز قرار دیا بلکہ سابق فوجی سربراہ کو آئین میں ترمیم کرنے کی بھی اجازت دے دی تھی۔