2007ء میں ججوں کی نظر بندی کے مقدمے میں بھی سابق صدر پرویز مشرف کی ضمانت کی درخواست زیر التواء ہے جس کی سماعت بدھ کو متوقع ہے۔
اسلام آباد —
راولپنڈی میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت نے پیر کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی بے نظیر قتل کیس میں ضمانت کی درخواست کو منظور کر لی ہے۔
جج حبیب الرحمن نے پرویز مشرف کو 10، 10 لاکھ کے دو مچلکے جمع کرنے کی بھی ہدایت جاری کی۔
استغاثہ کے خصوصی وکیل محمد اظہر چوہدری نے سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ انھوں نے پرویز مشرف کی ضمانت کی درخواست کی بھرپور مخالفت کی کیوں کہ ان کے بقول سابق صدر کے خلاف ان کے پاس ٹھوس شواہد اور سرکاری حکام کے بیانات موجود ہیں۔
’’پرویز مشرف پہلے اشتہاری ملزم بھی رہے، ضمانت پر رہائی ہوتی ہے تو خدشہ ہے کہ دوبارہ باہر چلے جائیں۔ میں نے عدالت کو کہا کہ دیکھ لیں اُن کا کردار کیا رہا ہے لیکن ضمانت پر رہائی (عدالت کا) صوابدیدی اختیار ہوتا ہے۔‘‘
ان کے مطابق دفاع کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد بیان بھی ریکارڈ ہو گیا اس لیے ان کی ضمانت پر رہائی کی درخوست منظور کی جائے۔
’’(پرویز مشرف کے) وکیل کا کہنا تھا کہ اُن کے موکل سابق آرمی چیف اور صدر رہے ہیں، کوئی عادی مجرم نہیں اس لیے انہیں زیر حراست نہیں رکھنا چاہیئے۔‘‘
سابق صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر اُنھیں 2007ء میں ناکافی سکیورٹی فراہمی کی تھی۔
گزشتہ چند روز میں پرویز مشرف کے خلاف دائر مقدمات سے متعلق اہم پیش رفت ہوئی ہے، جس میں ججوں کو نظر بند کرنے کے مقدمے کے ایک مدعی اور وکیل اسلم گھمن نے حال ہی میں عدالت میں اس مقدمے کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس سے قبل بے نظیر بھٹو قتل کیس میں سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار اسلام آباد میں ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اسلم گھمن کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کی پرویز مشرف کی طرف ’’مصالحتی رویہ‘‘ کی وجہ سے انھوں نے سابق صدر کے خلاف مقدمے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہے۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو2007ء میں انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے بعد خود کش حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
حکام اس حملہ کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان پر عائد کرتے ہیں۔
اظہر چوہدری نےاس مقدمے میں تاخیر کی ذمہ داری دفاع کے وکلاء کو قرار دیا۔ ’’اعلٰی عدالت سے ہم نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے احکامات حاصل کیے مگر دفاع کے وکلاء کبھی آتے نہیں یا پھر مختلف بہانے بناتے رہتے ہیں۔‘‘
بے نظیر قتل کیس میں دو سینئیر پولیس افسران ’سعود عزیز اور خرم شہزاد ‘ پہلے ہی ضمانت پر رہا ہیں ان پر ایک یہ الزام ہے کہ انھوں نے حملے سے کچھ ہی دیر بعد جائے وقوع کو دھلوا دیا تھا، جس سے کئی شواہد ضائع ہو گئے۔
جب کہ خودکش حملہ آور کے پانچ مبینہ ساتھی اور مددگار بھی زیر حراست ہیں۔
سابق صدر کی 2007ء میں ججوں کی نظر بندی کے مقدمے میں ضمانت کی اپیل روالپنڈی بھی ہی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں زیر التواء ہے جس کی سماعت بدھ کو متوقع ہے۔
جج حبیب الرحمن نے پرویز مشرف کو 10، 10 لاکھ کے دو مچلکے جمع کرنے کی بھی ہدایت جاری کی۔
استغاثہ کے خصوصی وکیل محمد اظہر چوہدری نے سماعت کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ انھوں نے پرویز مشرف کی ضمانت کی درخواست کی بھرپور مخالفت کی کیوں کہ ان کے بقول سابق صدر کے خلاف ان کے پاس ٹھوس شواہد اور سرکاری حکام کے بیانات موجود ہیں۔
’’پرویز مشرف پہلے اشتہاری ملزم بھی رہے، ضمانت پر رہائی ہوتی ہے تو خدشہ ہے کہ دوبارہ باہر چلے جائیں۔ میں نے عدالت کو کہا کہ دیکھ لیں اُن کا کردار کیا رہا ہے لیکن ضمانت پر رہائی (عدالت کا) صوابدیدی اختیار ہوتا ہے۔‘‘
ان کے مطابق دفاع کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد بیان بھی ریکارڈ ہو گیا اس لیے ان کی ضمانت پر رہائی کی درخوست منظور کی جائے۔
’’(پرویز مشرف کے) وکیل کا کہنا تھا کہ اُن کے موکل سابق آرمی چیف اور صدر رہے ہیں، کوئی عادی مجرم نہیں اس لیے انہیں زیر حراست نہیں رکھنا چاہیئے۔‘‘
سابق صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر اُنھیں 2007ء میں ناکافی سکیورٹی فراہمی کی تھی۔
گزشتہ چند روز میں پرویز مشرف کے خلاف دائر مقدمات سے متعلق اہم پیش رفت ہوئی ہے، جس میں ججوں کو نظر بند کرنے کے مقدمے کے ایک مدعی اور وکیل اسلم گھمن نے حال ہی میں عدالت میں اس مقدمے کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس سے قبل بے نظیر بھٹو قتل کیس میں سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار اسلام آباد میں ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اسلم گھمن کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف کی پرویز مشرف کی طرف ’’مصالحتی رویہ‘‘ کی وجہ سے انھوں نے سابق صدر کے خلاف مقدمے سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہے۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو2007ء میں انتخابی مہم کے دوران راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے بعد خود کش حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
حکام اس حملہ کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان پر عائد کرتے ہیں۔
اظہر چوہدری نےاس مقدمے میں تاخیر کی ذمہ داری دفاع کے وکلاء کو قرار دیا۔ ’’اعلٰی عدالت سے ہم نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے احکامات حاصل کیے مگر دفاع کے وکلاء کبھی آتے نہیں یا پھر مختلف بہانے بناتے رہتے ہیں۔‘‘
بے نظیر قتل کیس میں دو سینئیر پولیس افسران ’سعود عزیز اور خرم شہزاد ‘ پہلے ہی ضمانت پر رہا ہیں ان پر ایک یہ الزام ہے کہ انھوں نے حملے سے کچھ ہی دیر بعد جائے وقوع کو دھلوا دیا تھا، جس سے کئی شواہد ضائع ہو گئے۔
جب کہ خودکش حملہ آور کے پانچ مبینہ ساتھی اور مددگار بھی زیر حراست ہیں۔
سابق صدر کی 2007ء میں ججوں کی نظر بندی کے مقدمے میں ضمانت کی اپیل روالپنڈی بھی ہی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں زیر التواء ہے جس کی سماعت بدھ کو متوقع ہے۔