سابق فوجی صدر پرویز مشرف گزشتہ ماہ سے اسلام آباد کے چک شہزاد میں سب جیل قرار دیے جانے والے اپنے فارم ہاؤس میں زیر حراست ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کی ایک عدالت نے ججوں کی نظر بندی کیس میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
بدھ کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس مقدمے کی سماعت کی جس میں وکیل استغاثہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ ملزم کو سنگین الزامات کا سامنا ہے لہذا ان کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔
سرکاری وکیل عامر ندیم نے عدالت سے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے اور اس قانون کے مطابق ایسا جرم جس کی سزا کم سے کم دس سال ہو اس میں ملوث شخص کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔
سابق صدر کے وکیل الیاس صدیقی کا موقف تھا کہ ان کے موکل کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے ججوں کو نظر بند کرنے کے کبھی بھی کوئی احکامات نہیں دیے تھے اور اگر ایسا ہے تو اس کا ثبوت عدالت میں پیش کیا جائے۔
وکیل استغاثہ نے اس کے جواب میں کہا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی ججوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلٰی عدلیہ کے جج حراست میں اور غیر فعال تھے۔
عدالت نے یہ دلائل سننے کے بعد سابق فوجی صدر کی درخواست ضمانت خارج کر دی۔
پرویز مشرف چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے بعد رواں سال مارچ میں وطن واپس آئے تھے۔
اُنھیں چیف جسٹس سمیت اعلٰی عدلیہ کے ساٹھ ججوں کو غیر فعال کر کے نظر بند کرنے سمیت تین اہم مقدمات کا سامنا ہے۔ ان میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس اور بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کیس شامل ہیں۔
مشرف گزشتہ ماہ سے چک شہزاد میں سب جیل قرار دیے جانے والے اپنے فارم ہاؤس میں زیر حراست ہیں۔
اگست 2009ء میں ایک وکیل اسلم گھمن نے سابق صدر کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف نے تین نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے 60 ججوں کو نظر بند کیا تھا لہذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
گزشتہ ہفتے ہی ججوں کی نظر بندی مقدمے کے اہم مدعی اسلم گھمن نے اپنی درخواست واپس لیتے ہوئے اس مقدمے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسلم گھمن یہ کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے کسی دباؤ کے بغیر صرف مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی کی بنا پر یہ درخواست واپس لی ہے۔
بدھ کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس مقدمے کی سماعت کی جس میں وکیل استغاثہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ ملزم کو سنگین الزامات کا سامنا ہے لہذا ان کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے۔
سرکاری وکیل عامر ندیم نے عدالت سے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے اور اس قانون کے مطابق ایسا جرم جس کی سزا کم سے کم دس سال ہو اس میں ملوث شخص کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔
سابق صدر کے وکیل الیاس صدیقی کا موقف تھا کہ ان کے موکل کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے ججوں کو نظر بند کرنے کے کبھی بھی کوئی احکامات نہیں دیے تھے اور اگر ایسا ہے تو اس کا ثبوت عدالت میں پیش کیا جائے۔
وکیل استغاثہ نے اس کے جواب میں کہا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی ججوں کی رہائی کے احکامات جاری کیے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلٰی عدلیہ کے جج حراست میں اور غیر فعال تھے۔
عدالت نے یہ دلائل سننے کے بعد سابق فوجی صدر کی درخواست ضمانت خارج کر دی۔
پرویز مشرف چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے بعد رواں سال مارچ میں وطن واپس آئے تھے۔
اُنھیں چیف جسٹس سمیت اعلٰی عدلیہ کے ساٹھ ججوں کو غیر فعال کر کے نظر بند کرنے سمیت تین اہم مقدمات کا سامنا ہے۔ ان میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس اور بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی قتل کیس شامل ہیں۔
مشرف گزشتہ ماہ سے چک شہزاد میں سب جیل قرار دیے جانے والے اپنے فارم ہاؤس میں زیر حراست ہیں۔
اگست 2009ء میں ایک وکیل اسلم گھمن نے سابق صدر کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف نے تین نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے 60 ججوں کو نظر بند کیا تھا لہذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
گزشتہ ہفتے ہی ججوں کی نظر بندی مقدمے کے اہم مدعی اسلم گھمن نے اپنی درخواست واپس لیتے ہوئے اس مقدمے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسلم گھمن یہ کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے کسی دباؤ کے بغیر صرف مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی مفاہمتی پالیسی کی بنا پر یہ درخواست واپس لی ہے۔