کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسلام آباد میں سابق صدر کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دے کر انہیں دو ہفتوں کے عدالتی ریمانڈ پر بھیجنے کا حکم دیا۔
اسلام آباد —
بلوچستان پولیس نے جمعرات کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کیس میں گرفتار کیا۔
پرویز مشرف کے ایک وکیل اور قریبی ساتھی احمد رضا قصوری نے بتایا کہ کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسلام آباد میں سابق صدر کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دے کر انہیں دو ہفتوں کے عدالتی ریمانڈ پر بھیجنے کا حکم دیا۔
رواں ہفتے عدالت کے حکم پر پرویز مشرف کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے اسے ’’صرف کاغذی کارروائی‘‘ قرار دیا۔ ’’زیرحراست تو وہ پہلے سے تھے اب صرف کاغذوں میں آگیا ہے کہ وہ اکبر بگٹی قتل کیس میں بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ ہم ججوں کی نظر بندی کیس کی طرح یہاں بھی ضمانت کی درخواست کوئٹہ ہائی کورٹ میں کریں گے اور ضمانت کے بعد وہ آزاد اور ان کا گھر سب جیل نہیں رہے گا۔‘‘
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک مقامی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے برعکس پرویز مشرف کی 2007ء میں ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات پر دائر مقدمے میں ضمانت پر رہائی کا حکم جاری کیا ہے۔
اس سے پہلے انہیں سابق وزیراعظم بے نظیر قتل کیس میں بھی ضمانت پر رہائی حاصل ہوگئی تھی۔
نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں عدالت سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور اس وقت کے بلوچستان کے گورنر اویس غنی کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کر چکی ہے۔
پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے سینیئر نائب صدر احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ بگٹی قتل کیس میں ضمانت پر رہائی کے بعد پرویز مشرف اپنی بیمار والدہ کی عیادت کے لئے دبئی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا کہ موجودہ حکومت سے مبینہ معاہدے کے تحت پرویز مشرف وطن واپس نہیں آئیں گے۔ تاہم ان کا کہنا تھا ’’ہمارا ان (پرویز مشرف) کو مشورہ ہے کہ اگر وہ ملک میں رہتے ہیں تو وہ ان کی سیاسی حیات کی علامت ہوگی ورنہ مسقل طور پر باہر رہنا سیاسی طور پر موت کا پیغام ہوگا۔ تو ان کے لیے شارپ چوائس ہیں۔‘‘
عدالت اعظمیٰ میں پرویز مشرف کے خلاف 2007 میں آئین توڑ کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات پر غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواستیں زیر سماعت ہیں اور اس متعلق میاں نواز شریف کی حکومت نے اپنا موقف عدالت کے سامنے ابھی پیش کرنا ہے۔
پاکستان کے آئین کے تحت صرف وفاقی حکومت ہی کسی شخص کے خلاف غداری کی کارروائی شروع کرنے کی مجاز ہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت پختونخواہ ملی عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر حکومت پرویز مشرف کے خلاف کوئی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے تو اس میں سابق صدر کے ساتھیوں اور مدد کرنے والوں کو بھی شامل کیا جائے۔
پرویز مشرف کے ایک وکیل اور قریبی ساتھی احمد رضا قصوری نے بتایا کہ کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اسلام آباد میں سابق صدر کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دے کر انہیں دو ہفتوں کے عدالتی ریمانڈ پر بھیجنے کا حکم دیا۔
رواں ہفتے عدالت کے حکم پر پرویز مشرف کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے اسے ’’صرف کاغذی کارروائی‘‘ قرار دیا۔ ’’زیرحراست تو وہ پہلے سے تھے اب صرف کاغذوں میں آگیا ہے کہ وہ اکبر بگٹی قتل کیس میں بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ ہم ججوں کی نظر بندی کیس کی طرح یہاں بھی ضمانت کی درخواست کوئٹہ ہائی کورٹ میں کریں گے اور ضمانت کے بعد وہ آزاد اور ان کا گھر سب جیل نہیں رہے گا۔‘‘
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک مقامی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے برعکس پرویز مشرف کی 2007ء میں ججوں کو نظر بند کرنے کے الزامات پر دائر مقدمے میں ضمانت پر رہائی کا حکم جاری کیا ہے۔
اس سے پہلے انہیں سابق وزیراعظم بے نظیر قتل کیس میں بھی ضمانت پر رہائی حاصل ہوگئی تھی۔
نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں عدالت سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور اس وقت کے بلوچستان کے گورنر اویس غنی کی گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کر چکی ہے۔
پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے سینیئر نائب صدر احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ بگٹی قتل کیس میں ضمانت پر رہائی کے بعد پرویز مشرف اپنی بیمار والدہ کی عیادت کے لئے دبئی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے مقامی ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا کہ موجودہ حکومت سے مبینہ معاہدے کے تحت پرویز مشرف وطن واپس نہیں آئیں گے۔ تاہم ان کا کہنا تھا ’’ہمارا ان (پرویز مشرف) کو مشورہ ہے کہ اگر وہ ملک میں رہتے ہیں تو وہ ان کی سیاسی حیات کی علامت ہوگی ورنہ مسقل طور پر باہر رہنا سیاسی طور پر موت کا پیغام ہوگا۔ تو ان کے لیے شارپ چوائس ہیں۔‘‘
عدالت اعظمیٰ میں پرویز مشرف کے خلاف 2007 میں آئین توڑ کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے الزامات پر غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواستیں زیر سماعت ہیں اور اس متعلق میاں نواز شریف کی حکومت نے اپنا موقف عدالت کے سامنے ابھی پیش کرنا ہے۔
پاکستان کے آئین کے تحت صرف وفاقی حکومت ہی کسی شخص کے خلاف غداری کی کارروائی شروع کرنے کی مجاز ہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت پختونخواہ ملی عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی قومی اسمبلی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر حکومت پرویز مشرف کے خلاف کوئی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے تو اس میں سابق صدر کے ساتھیوں اور مدد کرنے والوں کو بھی شامل کیا جائے۔