پاکستان کے مختلف شہروں بشمول وفاقی دارالحکومت میں حالیہ دنوں میں ایسے پوسٹر یا اشتہارات آویزاں کیے گئے جن میں بظاہر فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو ملک کا اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔
یہ معاملہ ملک میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے، کہ ان اشتہارات کا حقیقی مقصد ہے کیا اور ان کے پیچھے کون لوگ ہیں۔
اگرچہ یہ اشتہارات غیر معروف جماعت ’’موو آن پاکستان‘‘ کی طرف سے آویزاں کیے گئے، لیکن ملک میں قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔
اس معاملے پر ملک میں بڑھتی ہوئی بحث کے تناظر میں پاکستانی فوج کے ترجمان لفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’’ٹوئیٹر‘‘ پر ایک پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ملک کے مختلف شہروں میں فوج کے سربراہ کے حوالے سے لگائے گئے پوسٹرز سے ’’فوج یا اس سے وابستہ کسی شعبے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
پوسٹروں میں جنرل راحیل کی تصویر کے ساتھ یہ تحریر ہے کہ ’’جانے کی باتیں۔۔۔ ہوئیں پرانی۔ خدا کے لیے اب آجاؤ!‘‘
واضح رہے کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے عہدے کے میعاد کے اختتام پر رواں سال کے اواخر میں ریٹائر ہو جائیں گے اور وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہشمند نہیں ہیں۔
موو آن کے چیف آرگنائزر علی ہاشمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کی جماعت سمجھتی ہے کہ جنرل راحیل شریف انسداد دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل اور بدعنوانی کے خلاف کوششوں پر زیادہ موثر طریقے سے عمل درآمد کروا سکتے ہیں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی میجر (ریٹائرڈ) طاہر اقبال کہتے ہیں کہ یہ اشتہارات ایسے لوگوں کی طرف سے آویزاں کیے گئے جو ملک میں جمہوری نظام کے حامی نہیں ہیں۔
’’شاید ان کو جمہوری نظام سے کوئی فائدہ نہیں مل سکتا، تو وہ سمجھتے ہیں کہ اگر آمریت ہو گی تو اُنھیں کچھ فائدہ مل جائے گا۔۔۔ میں اپنے طور پر سمجھتا ہوں کہ جنرل راحیل شریف کی ساکھ اتنی اچھی ہے کہ وہ اس طرح کا کوئی کام کرنا نہیں چاہتے اور نا فوج اس وقت اس طرح کی کوئی چیز سوچ رہی ہے میرے خیال میں۔‘‘
حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے سینیئر رہنما عارف علوی کہتے ہیں کہ جب ملک کی منتخب حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی تو اُن کے بقول اس طرح کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
’’جب غیر ذمہ دارانہ طریقے سے حکومت کام کرے گی تو نتیجتاً خطرات بڑھ جاتے ہیں میرے خیال میں اس طرح کی کوئی بات ہونے والی نہیں ہے کم از کم پاکستان تحریک انصاف جمہوریت کو پٹڑی سے اترتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی۔‘‘
تجزیہ کار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہمیشہ سے ایک طبقہ اس بات کا حامی رہا ہے کہ فوج کو ملک کا نظام سنبھالنا چاہیئے۔
’’پاکستان میں تو ہمیشہ ایک سوچ موجود رہی ہے جو بڑی ایمانداری اور مخلصی کے ساتھ یہ بھروسہ کرتی ہے کہ یہاں پر فوج کو ہی ملک کا کاروبار سنبھالنا چاہیئے اور جب بھی کبھی بحران کی صورت حال پیدا ہوتی ہے یا لوگ حکومت سے غیر مطمعین ہوتے ہیں تو اس وقت وہ طبقہ زیادہ مضبوط اور فعال ہو جاتا ہے۔‘‘
حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو کہتے ہیں کہ فوج کے سربراہ کو ایسے عناصر سے ہوشیار رہنا چاہیئے جو ہمیشہ سے خوش آمد کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
’’راحیل شریف صاحب کی خدمات کو سلام پیش کرتے ہیں میں کہتا ہوں کہ ان لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیئے جو آپ کی عزت کے دشمن ہیں یہ ایوب خان کے لیے بھی ایسا کہتے تھے، پرویز مشرف کے لیے بھی کہتے تھے۔‘‘
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں یہ خبریں منظر عام پر آتی رہیں کہ بعض معاملات پر وزیراعظم نواز شریف اور عسکری قیادت کے درمیان اختلاف ہے۔ تاہم حکومت کی طرف سے ایسی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کی جاتی رہے۔
تجزیہ کار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کو بہت سے فیصلے کرتے وقت بعض چیزوں پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
’’سیاستدان جب کام کرتے ہیں تو کچھ رکاوٹیں اُن کے راستے میں ہوتی ہیں، ان کو الیکشن لڑنا ہوتا ہے انھیں الیکشن جیتنا ہوتا ہے انھیں اپنے حلقے کے لوگوں کو خوش کرنا ہوتا ہے تو بعض اوقات وہ سمجھوتا کرتے ہیں، فوجی جب اقتدار میں آتے ہیں تو پھر انھیں پتہ چلتا ہے کہ کیسے سمجھوتے یا ڈیل کی جاتی ہے۔ لیکن اقتدار میں آئے بغیر بھی ان کو چاہیئے کہ اس طرح کی صورت حال کو سمجھیں۔‘‘
پاکستان کی تاریخ میں فوج کے سربراہان ملک کی منتخب حکومتوں کو ہٹا کر اقتدار میں آتے رہے ہیں اور اُنھیں اس کام میں سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔
تاہم حالیہ برسوں میں ملک کی تمام ہی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آتے رہے ہیں کہ کسی بھی غیر آئینی طریقے سے منتخب حکومت کے خاتمے کی کوششوں کا ساتھ نہیں دیا جائے گا۔