جمعیت العمائے اسلام (س) کے امیر اور مشہور دینی مدرسے اکوڑہ خٹک کے سرپرست مولانا سمیع الحق کو راول پنڈی میں حملہ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ آج وہ پشاور سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے اور شام کو واپس جانے والے تھے۔
میڈیا رپورٹس میں مولانا سمیع الحق کے صاحب زادے مولانا حامد الحق کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان پر حملہ راول پنڈی میں اس وقت کیا گیا جب وہ عصر کی نماز کے بعد گھر میں آرام کر رہے تھے۔ ان کے ڈرائیور اور گن مین باہر گئے ہوئے تھے۔ جب وہ واپس آئے تو مولانا خون میں لت پت پڑے تھے۔ پولیس نے دونوں کو تفتیش میں شامل کر لیا ہے کیونکہ مولانا کو اکیلا چھوڑ کر دونوں کا ایک ساتھ باہر جانا سوال کھڑے کر رہا ہے۔
مولانا حامد الحق کا کہنا ہے کہ ان پر چھریوں کے وار کیے گئے۔ ان پر حملہ راول پنڈی کے مضافاتی علاقے بحریہ ٹاؤن میں ان کی رہائش گاہ میں ہوا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاتل ان کا تعاقب کر رہے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے دیکھا کہ مولانا کمرے میں اکیلے ہیں تو وہ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور انہیں ہلاک کرنے کے بعد فرار ہو گئے
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ وہ پشاور جانے سے قبل اسلام آباد جانے والے تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قاتل اسلام آباد میں بھی ان کا پیچھا کرتے۔
مولانا سمیع الحق کے ایک ہمسائے بنگش نے بتایا کہ جب یہ واقعہ ہوا، اس وقت انہوں نے موٹر سائیکل پر دو تین افراد کو فرار ہوتے ہوئے دیکھا۔
وزیر اعظم عمران خان کو اس سانحہ کی اطلاع چین میں دے دی گئی ہے۔ جنہوں نے گہرے رنج اور دکھ اظہار کرتے ہوئے قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
پاکستان مسلم لیگ کے راہنما احسن اقبال نے مولانا کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ممتاز عالم دین اور سیاست دان تھے۔
مولانا فضل الرحمن نے اس واقعہ پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان سے احترام اور محبت کا رشتہ تھا۔
فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف باجوہ نے مولانا کے قتل پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
مولانا سمیع الحق کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ تعلیم و تدریس اور سیاست میں متحرک کردار ادا کر رہے تھے۔ وہ دو بار سینیٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔
ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ جن میں افغان طالبان بھی شامل ہیں۔
مولانا نے ایک ایسے وقت میں پولیو سے بچاؤ کی سرکاری مہم کی حمایت کی تھی جب طالبان اس کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔
مولانا کے مدرسے میں جدید نصاب کے لیے تحریک انصاف کی حکومت نے بھاری فنڈنگ کی تھی۔
ان پر اس سے قبل بھی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔
مولانا سمیع الحق کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ افغان طالبان پر اثرو رسوخ رکھتے تھے اور افغانستان میں دیر پا امن اور استحکام کے سلسلے میں اکثر پاکستانی اور افغان اعلیٰ حکام ان سے ملاقاتیں کرتے تھے۔
ادھر، مولانا سمیع الحق کی ہلاکت پر طالبان نے اپنے ایک بیان میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ تمام مسلم امہ اور خاص طور پر پاکستان کے لئے بڑا نقصان ہے‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’طالبان اسلامی امارات افغانستان کو اس پر افسوس ہے اور امید ہے کہ قاتلوں کو سزا ہوگی۔‘‘
طالبان نے کہا ہے کہ ’’مولانا سمیع الحق نے اپنی تمام زندگی تعلیمی اور سیاسی میدان میں دین کے لئے وقف کی‘‘۔
بقول اُن کے، ’’یہ اسلام دشمنوں کا کام ہے؛ اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ مولانا سمیع الحق جیسے ایک بڑے شخص امت مسلمہ کو بیداری کا درس دیں۔ اس لیے انہوں نے سمیع الحق کو اتنی بزدلی سے ہلاک کیا‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’مولانا سمیع الحق نے افغانستان میں سویت اور امریکی جنگ کے دوران مظلوم عوام کا ساتھ دیا اور حق کی بات کی‘‘۔
رشتے داروں کے حوالے سے میڈیا اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ رات گئے اُن کی میت اکوڑہ خٹک روانہ کر دی گئی، اور نمازہ جنازہ ہفتے کو 3 بجے سہ پہر ادا کی جائے گی۔