ایک ہزار سے زائد لاپتا افراد کا معاملہ تاحال زیر تحقیق

فائل فوٹو

پاکستان میں لاپتا افراد کے معاملے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کے سربراہ نے قانون سازوں کو بتایا کہ کمیشن میں رپورٹ ہونے والے چار ہزار 929 کیسز میں سے ایک ہزار 710 کی تحقیقات جاری ہیں جب کہ دیگر نمٹائے جا چکے ہیں۔

پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں کمیشن کے سربراہ جاوید اقبال نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے لاپتا افراد کی جانب سے 723 کیسز رپورٹ کیے گئے جن میں سے اب تک 505 کو نمٹایا جا چکا ہے۔

اجلاس میں ایک قانون ساز نے جاوید اقبال سے دریافت کیا کہ حال ہی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے شروع ہونے والی تحریک مں بھی لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ شدومد سے کیا جا رہا ہے تو آیا کمیشن اس بابت بھی کچھ کر رہا ہے۔

اس پر کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ وہ اس تحریک کے رہنما منظور پشتین سے رابطہ کریں گے۔

کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرنے والی رکن قومی اسمبلی زہرہ ودود فاطمی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ کمیشن نے جو باتیں پیر کو قانون سازوں کو بتائیں ان میں کوئی نئی معلومات نہیں تھی اور اس بابت ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔

"ہمارا ان سے سوال تھا کہ اس بات کا کیا مطلب ہے کہ کیسز حل ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان (افراد) کے بارے میں پتا چل گیا ہے۔ لہذا اب وہ لاپتا نہیں ہیں۔ ہمارا سوال تھا کہ اگر آپ کو صرف یہ پتا چل جائے کہ وہ انسان مل گیا ہے تو یہ معاملہ ختم نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ بھی پتا چلنا چاہیے تھا کہ یہ لاپتا ہوئے کیسے، کون لے کر گیا تھا اور یہ کدھر گئے تھے۔ اگر کسی نے ان کو اغوا کیا اور کہیں لے کر گئے تو اس کا اگر ہمیں پتا نہیں چلے گا تو یہ مجھے بتائے کہ آپ اس کے خلاف کیسے آواز اٹھائیں گے۔"

جاوید اقبال نے اجلاس میں اس بات کا اعتراف کیا کہ بازیاب ہونے والے اکثر لوگ کمیشن کے سامنے اپنی روداد سنانے سے گریز کرتے ہیں۔

پاکستان میں جبری گمشدگی کا معاملہ نیا نہیں اور اس پر پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔ حال ہی میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی پاکستان سے مطالبہ کر چکی ہیں کہ وہ لاپتا افراد کے معاملے کو سنجیدگی سے حل کرے اور ان واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔

رکن قومی اسمبلی زہرہ فاطمی کا کہنا تھا کہ شہریوں کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن ان کے بقول بدقسمتی سے ان پر مؤثر طور پر عملدرآمد نہیں ہو پا رہا ہے۔