انٹیلیجنس اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے عدالت کو بتایا یہ تمام افراد فوجی قافلوں پر حملوں میں ملوث ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی صورت میں بھی ان کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیئے تھے
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے انٹیلی جنس اداروں کے زیرحراست پارا چنار میں قید سات افراد کے بارے میں کہا ہے کہ بغیر شواہد کے ان کو حراست میں رکھنا غیر قانونی فعل ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے منگل کو خفیہ اداروں کی حراست میں افراد سے متعلق مقدمے کی سماعت میں کہا کہ بغیر ثبوتوں کے ان افراد کی حراست کی مدت میں اضافے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
انٹیلیجنس اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے عدالت کو بتایا یہ تمام افراد فوجی قافلوں پر حملوں میں ملوث ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی صورت میں بھی ان کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیئے تھے لیکن کسی بھی عدالت میں ان افراد کے خلاف کوئی مقدمہ زیر سماعت نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اس موقع پر عدالت سے استدعا کی اُنھیں اس بارے میں حکومت سے ہدایات لینے کے لیے مہلت دی جائے، جس پر سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت 24 جنوری تک ملتوی کر دی۔
فوج کے راولپنڈی میں صدر دفتر ’جی ایچ کیو‘ اور دیگر عسکری اہداف پر حملوں میں ملوث ہونے کے شبے میں ان 11 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی کے بعد انھیں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے 2009ء میں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کیے جانے والے ان افراد کو فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا اور بعد میں عدالت عظمیٰ کے نوٹس پر اس بارے میں حفیہ ایجنسوں کے وکیل نے سپریم کورٹ کو آگاہ بھی کر دیا تھا۔
فوج کے خفیہ اداروں، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی، کے وکیل راجہ ارشاد عدالت کو بتا چکے ہیں حراست میں لیے گئے 11 افراد میں سے چار مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں اور دیگر سات افراد میں سے چار پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال اور تین پارا چنار میں فوج کے تفتیشی مرکز میں موجود ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے منگل کو خفیہ اداروں کی حراست میں افراد سے متعلق مقدمے کی سماعت میں کہا کہ بغیر ثبوتوں کے ان افراد کی حراست کی مدت میں اضافے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
انٹیلیجنس اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے عدالت کو بتایا یہ تمام افراد فوجی قافلوں پر حملوں میں ملوث ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی صورت میں بھی ان کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیئے تھے لیکن کسی بھی عدالت میں ان افراد کے خلاف کوئی مقدمہ زیر سماعت نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اس موقع پر عدالت سے استدعا کی اُنھیں اس بارے میں حکومت سے ہدایات لینے کے لیے مہلت دی جائے، جس پر سپریم کورٹ نے مقدمے کی سماعت 24 جنوری تک ملتوی کر دی۔
فوج کے راولپنڈی میں صدر دفتر ’جی ایچ کیو‘ اور دیگر عسکری اہداف پر حملوں میں ملوث ہونے کے شبے میں ان 11 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی کے بعد انھیں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں نے 2009ء میں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے رہا کیے جانے والے ان افراد کو فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا اور بعد میں عدالت عظمیٰ کے نوٹس پر اس بارے میں حفیہ ایجنسوں کے وکیل نے سپریم کورٹ کو آگاہ بھی کر دیا تھا۔
فوج کے خفیہ اداروں، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی، کے وکیل راجہ ارشاد عدالت کو بتا چکے ہیں حراست میں لیے گئے 11 افراد میں سے چار مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں اور دیگر سات افراد میں سے چار پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال اور تین پارا چنار میں فوج کے تفتیشی مرکز میں موجود ہیں۔