حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پروفیسر ساجد میر کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں تشدد کے واقعات اور یہ وڈیو کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا نہیں بلکہ دیگر شدت پسند گروہوں کا کام ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستانی شدت پسندوں کی ایک ویب سائٹ پر حال ہی میں نشر ہونے والی وڈیو میں طالبان نے وادی چترال میں اسماعیلی برادری اور کالاش قبیلے سے تعلق رکھنے والی آبادی سے کہا ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں ورنہ ان کے خلاف مسلح کارروائیاں کی جائیں گی۔
مقامی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق 50 منٹ کی اس وڈیو میں ان بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی ہے جو کہ ان کے بقول شمالی علاقے میں کالاش ثقافت کے تحفظ اور لوگوں کو اسلام سے دور رکھنے کی کوشش کررہی ہیں۔
ان تنظیموں میں وڈیو کے مطابق خیراتی ادارہ آغا خان فاؤنڈیشن بھی شامل ہے جو وادی چترال میں 16 اسکولوں اور کالجوں اور ہاسٹلز میں مفت تعلیم فراہم کررہا ہے۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پروفیسر ساجد میر کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں تشدد کے واقعات اور یہ ویڈیو کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا نہیں بلکہ دیگر شدت پسند گروہوں کا کام ہو سکتا ہے۔
’’یہ وقت قیاس آرائیوں، الزام تراشی کا نہیں اور بدقسمتی سے ہمارے میڈیا اور پارلیمان میں یہی ہورہا ہے اور اس کے ساتھ مفروضات اور توہمات۔ میں کہہ رہا ہوں کہ کئی گروپس ہیں۔ اس بات میں زیادہ جانے کی بجائے ان مذاکرات کو کچھ ٹائم اور جگہ دینی چاہیے۔‘‘
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے قانون ساز اسد عمر کہتے ہیں کہ اقلیتوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم شدت پسندوں کی سوچ سے متعلق ان کا کہنا تھا۔
’’میں نے تو ویب سائٹ دیکھی نہیں۔ پتہ نہیں اس میں کیا کہا گیا ہے۔ اس پے تو کچھ نہیں کرسکتا۔ وزیراعظم نے کل کہا ہے کہ مذاکرات بڑے اچھے چل رہے ہیں تو ہم اس پر ہی یقین کرلیتے ہیں ابھی، جب تک اور کچھ نہیں ہے۔ اس (بات چیت) کا مقصد ان (شدت پسندوں) کی سوچ کو آئین و دستور کے دائرے اور اسلام کے حقیقی احکامات کے مطابق لائیں۔‘‘
پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بدھ کو متحدہ قومی موومنٹ کی ایک قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ طالبان سے جاری مذاکرات میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور تعلیم و صحت تک رسائی سمیت انہیں مذہبی آزادی بھی حاصل ہو۔
متحدہ کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین شیخ کا شدت پسندوں کی طرف سے اسماعیلی برادی اور کالاش قبیلے کی عوام کو دھمکی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا۔
’’مختلف معاملات پر سوچ بنانی پڑتی ہے اور ہماری حکومت ابہام اور ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ یہ اسلامی جمہوری ریاست کہلاتی ہے۔ قران و سنت کا نظام پہلے سے نافذ ہے تو اس کے بعد ڈنڈا بردار شریعتی نظام تھوڑا کوئی لایا جاسکتا ہے۔‘‘
پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کہتی ہیں۔
’’طالبان تو ایک گروہ ہے۔ اس سے کسی بھی وقت مقابلہ کیا جاسکتا ہے مگر جو طالبان کے ہمدرد اور پروموٹرز ہیں جو ہماری صفوں میں شامل ہیں اور ان (شدت پسندوں) کی تشریح عوام کے ذہنوں میں ڈال رہے ہیں ان کا کس طرح مقابلہ کرنا ہوگا ہمیں اس پر سوچنا چاہیے۔‘‘
جمعرات کو حزب اختلاف نے سینیٹ کی کارروائی سے عمران خان کے ایک حالیہ بیان پر احتجاجاً واک آؤٹ کیا کہ فوج کے سابق سربراہ اشفاق پرویز کیانی کے مطابق شمالی وزیرستان میں آپریشن کی کامیابی کے صرف 40 فیصد امکانات ہیں۔ حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ عمران خان کا اس وقت یہ بیان شدت پسندوں کے حوصلے بلند اور جاری مذاکرات میں ان کی پوزیشن مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔
مقامی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق 50 منٹ کی اس وڈیو میں ان بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی ہے جو کہ ان کے بقول شمالی علاقے میں کالاش ثقافت کے تحفظ اور لوگوں کو اسلام سے دور رکھنے کی کوشش کررہی ہیں۔
ان تنظیموں میں وڈیو کے مطابق خیراتی ادارہ آغا خان فاؤنڈیشن بھی شامل ہے جو وادی چترال میں 16 اسکولوں اور کالجوں اور ہاسٹلز میں مفت تعلیم فراہم کررہا ہے۔
’’یہ وقت قیاس آرائیوں، الزام تراشی کا نہیں اور بدقسمتی سے ہمارے میڈیا اور پارلیمان میں یہی ہورہا ہے اور اس کے ساتھ مفروضات اور توہمات۔ میں کہہ رہا ہوں کہ کئی گروپس ہیں۔ اس بات میں زیادہ جانے کی بجائے ان مذاکرات کو کچھ ٹائم اور جگہ دینی چاہیے۔‘‘
قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے قانون ساز اسد عمر کہتے ہیں کہ اقلیتوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم شدت پسندوں کی سوچ سے متعلق ان کا کہنا تھا۔
’’میں نے تو ویب سائٹ دیکھی نہیں۔ پتہ نہیں اس میں کیا کہا گیا ہے۔ اس پے تو کچھ نہیں کرسکتا۔ وزیراعظم نے کل کہا ہے کہ مذاکرات بڑے اچھے چل رہے ہیں تو ہم اس پر ہی یقین کرلیتے ہیں ابھی، جب تک اور کچھ نہیں ہے۔ اس (بات چیت) کا مقصد ان (شدت پسندوں) کی سوچ کو آئین و دستور کے دائرے اور اسلام کے حقیقی احکامات کے مطابق لائیں۔‘‘
پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بدھ کو متحدہ قومی موومنٹ کی ایک قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ طالبان سے جاری مذاکرات میں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور تعلیم و صحت تک رسائی سمیت انہیں مذہبی آزادی بھی حاصل ہو۔
متحدہ کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین شیخ کا شدت پسندوں کی طرف سے اسماعیلی برادی اور کالاش قبیلے کی عوام کو دھمکی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا۔
’’مختلف معاملات پر سوچ بنانی پڑتی ہے اور ہماری حکومت ابہام اور ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ یہ اسلامی جمہوری ریاست کہلاتی ہے۔ قران و سنت کا نظام پہلے سے نافذ ہے تو اس کے بعد ڈنڈا بردار شریعتی نظام تھوڑا کوئی لایا جاسکتا ہے۔‘‘
پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کہتی ہیں۔
’’طالبان تو ایک گروہ ہے۔ اس سے کسی بھی وقت مقابلہ کیا جاسکتا ہے مگر جو طالبان کے ہمدرد اور پروموٹرز ہیں جو ہماری صفوں میں شامل ہیں اور ان (شدت پسندوں) کی تشریح عوام کے ذہنوں میں ڈال رہے ہیں ان کا کس طرح مقابلہ کرنا ہوگا ہمیں اس پر سوچنا چاہیے۔‘‘
جمعرات کو حزب اختلاف نے سینیٹ کی کارروائی سے عمران خان کے ایک حالیہ بیان پر احتجاجاً واک آؤٹ کیا کہ فوج کے سابق سربراہ اشفاق پرویز کیانی کے مطابق شمالی وزیرستان میں آپریشن کی کامیابی کے صرف 40 فیصد امکانات ہیں۔ حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ عمران خان کا اس وقت یہ بیان شدت پسندوں کے حوصلے بلند اور جاری مذاکرات میں ان کی پوزیشن مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔