بین الامذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے سرکاری مہم

گذشتہ ماہ اسلام آباد میں منعقدہ ایک بین المذاہب مذاکرہ

اقلیتوں کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے کہا ہے کہ پاکستان میں بین الا مذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک ملک گیر مہم شروع کی جارہی ہے جس کا بنیادی مقصد انتہا پسند رحجانات کی حوصلہ شکنی کرنا اورعوام میں تما م مذاہب کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔

پیر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز بھٹی نے بتایا کہ اس مہم کے سلسلے میں ضلعی سطح پر خصوصی بین الامذاہب کمیٹیاں قائم کی جائیں گی اور ہر کمیٹی 27 ارکان پر مشتمل ہو گی جس میں 12 مسلمان برادری کی اور 12 اقلیتوں کی نمائندے ہوں گے جب کہ ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) ، ضلعی رابط افسر (ڈی سی او) اور ضلعی مالیتی افسر انتظامیہ کی نمائندگی کریں گے اور یہی تین افراد باقی ممبران کے ناموں کو باہمی صلاح و مشوروں کے بعد حتمی شکل دیں گے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ کمیٹی کے ممبران کو خصوصی تربیت دی جائے گی تاکہ اُنھیں ضلعی سطح پر مذہبی بنیادوں پر پیدا ہونے والے بحرانوں سے نمٹنے کا اہل بنایا جا سکے اور وہ مذاہب کے درمیان اعتماد کے فقدان کو کم کرنے ا ور مقامی صورت حال پر نظر رکھ سکیں۔ کمیٹی کے اراکین مساجد، گرجا گھروں اور دوسری اقلیتوں کی عبادت گاہوں میں جاکر بین الامذاہب ہم آہنگی کی تبلیغ کر سکیں گے ۔ اُنھوں نے کہا کہ عیسائی، سکھ، ہندو اور احمدیوں سمیت سبھی اقلیتوں کو ان کمیٹیوں میں نمائندگی دی جائے گی۔

بین الامذاہب ضلعی کمیٹیاں ہر ماہ ضلع کے سطح پر اور ہر چھ ماہ بعد علاقائی سطح پر جب کہ قومی سطح پر ہر سال منعقد کیے جانے والے اجلاسوں میں صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد ضروری اقدامات تجویز کریں گی۔

شہباز بھٹی نے بتایا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمان میں ضروری قانون سازی کے لیے بھی سفارشات زیر غور ہیں اور ان کی وزارت آئندہ تین ماہ میں اس حوالے سے ایک بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی تیاریا ں کررہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے وفاقی وزارت میں آئندہ ماہ سے ایک خصوصی ٹیلی فون لائن کی سہولت نصب کی جارہی ہے جس پر24 گھنٹے لوگو ں کی شکایا ت کو سنا جائے گا اور ان کا فوری ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ اقلیتوں کے خلاف توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی ایک بل کا مسودہ تیار کیا جار رہاہے۔ اس کے علاوہ نفرت انگیز مواد کی اشاعت اور تقاریر پر پابندی لگانے کے لیے بھی ایک قانونی مسودہ تیار کیا جارہے تاکہ انتہا پسندانہ رجحانات کو ختم کرنے میں مدد ملے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کی نمائندہ تنظیمیں اور انسانی حقوق کے کارکن ایک طویل عرصے سے توہین رسالت کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں لیکن مذہبی حلقوں اور بعض دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں کوئی بھی حکومت اس مسئلے کو چھیڑنے سے گھبراتی ہے۔ وفاقی وزیر شہباز بھٹی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس قانون کی منسوخی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن حکومت میں شامل ہونے کے بعد اب وہ بھی توہین رسالت کے قانون کے بارے میں براہ راست کوئی تبصرہ کرنے سے گریزاں ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں قائم آئینی کمیٹی کے پاس اٹھارویں ترمیم کی تیاری کے وقت توہین رسالت کے قانون میں اصلاحات متعارف کرانے کا ایک اچھا موقع تھا لیکن مذہبی پارٹیوں خصوصاََ پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام کے دباؤ کے تحت اس مسئلے کو سرے سے زیر بحث ہی نہیں لایا گیا۔

شہباز بھٹی

وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے بتایا کہ ملک بھر میں مختلف مذاہب کی اہم اور قدیم عبادت گاہوں کے تحفظ اور اُن کی تعمیر نو کے لیے بھی ایک مہم شروع کی جارہی ہے جن میں سوات اور تخت بائی کے علاقوں میں بدھ مت کے وہ مجسمے بھی شامل ہیں جنہیں طالبان شدت پسندوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے۔

اُن کے بقول ان تمام اقدامات سے پاکستان میں اقلیتوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہوگا اور وہ اپنے مذہبی فرائض کو آزادانہ طور پر انجام دے سکیں گے۔

خیال رہے کہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی تعدادکل آبادی کا تین اعشاریہ سات (3.7 )فیصد تھی اور ان سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 16کروڑ کی آبادی کے مسلمان اکثریت والے اس ملک میں لگ بھگ 60 لاکھ افراد کاتعلق اقلیتوں سے ہے۔