جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ سیاسی عمل کے ذریعے امن کو موقع دینا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن کسی کو یہ بدگمانی نہیں ہونی چاہیئے کہ فوج دہشت گردوں کو اپنی شرائط زبردستی قبول کروانے کی اجازت دے گی۔
اسلام آباد —
پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کو قیام امن کے سلسلے میں سیاسی عمل کا ’’فائدہ‘‘ نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔
شورش زدہ شمال مغربی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حالیہ مہلک حملوں کے بعد اپنے بیان میں جنرل کیانی نے کہا کہ فوج سیاسی عمل کی حمایت جاری رکھے گی۔
’’سیاسی عمل کے ذریعے امن کو موقع دینا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن کسی کو یہ بدگمانی نہیں ہونی چاہیئے کہ ہم دہشت گردوں کو اپنی شرائط زبردستی قبول کروانے کی اجازت دیں گے۔‘‘
جنرل کیانی نے کہا کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف موثر جنگ کی ’’صلاحیت اور عزم‘‘ رکھتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ فوج عوام کی منشا کے مطابق ہر قیمت پر دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے پر عزم ہے۔
جنرل کیانی کے بقول ’’دہشت گردی کے بزدلانہ واقعات‘‘ میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے دو اضلاع میں ہفتہ اور اتوار کو شدت پسندوں کی کارروائیوں میں مجموعی طور پر چھ سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے، جن میں میجر جنرل ثنااللہ خان بھی شامل تھے۔
میجر جنرل ثنا اللہ کے قافلے کو اتوار کی صبح دیر بالا کے علاقے میں بارودی سرنگ سے نشانہ بنایا گیا۔
دفاعی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دیر بالا میں حملہ کر کے شدت پسندوں نے فوج کو ’’براہ راست چیلنج‘‘ کیا ہے۔
رواں ماہ وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس میں ملک میں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام فریقوں سے مذاکرات پر اتفاق کیا گیا تھا۔
جس کے بعد حکومت میں شامل عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے بلواسطہ رابطے جاری ہیں تاہم باضابط مذاکرات سے متعلق تصدیق نہیں کی گئی۔
واضح رہے کہ اتوار کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان نے ذرائع ابلاغ سے رابطہ کر کے کہا تھا کہ مذاکرات سے قبل حکومت قبائلی علاقوں میں تعینات فوج کو واپس بلانے کے علاوہ اُن کے ساتھیوں کو رہا کرے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں کئی چھوٹے بڑے شدت پسند گروہ شامل ہیں اور اُن سب سے بیک وقت مذاکرات ایک پیچیدہ عمل ہوگا۔
شورش زدہ شمال مغربی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حالیہ مہلک حملوں کے بعد اپنے بیان میں جنرل کیانی نے کہا کہ فوج سیاسی عمل کی حمایت جاری رکھے گی۔
’’سیاسی عمل کے ذریعے امن کو موقع دینا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن کسی کو یہ بدگمانی نہیں ہونی چاہیئے کہ ہم دہشت گردوں کو اپنی شرائط زبردستی قبول کروانے کی اجازت دیں گے۔‘‘
جنرل کیانی نے کہا کہ فوج دہشت گردوں کے خلاف موثر جنگ کی ’’صلاحیت اور عزم‘‘ رکھتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ فوج عوام کی منشا کے مطابق ہر قیمت پر دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے پر عزم ہے۔
جنرل کیانی کے بقول ’’دہشت گردی کے بزدلانہ واقعات‘‘ میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے دو اضلاع میں ہفتہ اور اتوار کو شدت پسندوں کی کارروائیوں میں مجموعی طور پر چھ سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے، جن میں میجر جنرل ثنااللہ خان بھی شامل تھے۔
میجر جنرل ثنا اللہ کے قافلے کو اتوار کی صبح دیر بالا کے علاقے میں بارودی سرنگ سے نشانہ بنایا گیا۔
دفاعی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دیر بالا میں حملہ کر کے شدت پسندوں نے فوج کو ’’براہ راست چیلنج‘‘ کیا ہے۔
رواں ماہ وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس میں ملک میں دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام فریقوں سے مذاکرات پر اتفاق کیا گیا تھا۔
جس کے بعد حکومت میں شامل عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے بلواسطہ رابطے جاری ہیں تاہم باضابط مذاکرات سے متعلق تصدیق نہیں کی گئی۔
واضح رہے کہ اتوار کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک ترجمان نے ذرائع ابلاغ سے رابطہ کر کے کہا تھا کہ مذاکرات سے قبل حکومت قبائلی علاقوں میں تعینات فوج کو واپس بلانے کے علاوہ اُن کے ساتھیوں کو رہا کرے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں کئی چھوٹے بڑے شدت پسند گروہ شامل ہیں اور اُن سب سے بیک وقت مذاکرات ایک پیچیدہ عمل ہوگا۔