فوجی عدالتوں سے متعلق مسودہ قانون پارلیمانی کمیٹی کے سپرد

پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے فوجی عدالتوں کی بحالی اور توسیع سے متعلق مسودہ قانون جمعے کو قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

تاہم حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی اور حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) کی مخالفت کے باعث مسودہ قانون کو ایک بار پھر پارلیمانی کمیٹی میں بھیج دیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر زاہد حامد کی طرف سے پیش کیے گئے مسودہ قانون میں کہا گیا کہ ملک کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اور دہشت گرد گروہ مذہب کا غلط استعمال کرتے ہوئے ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھائے ہوئے ہیں۔

تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اُن کی جماعت کا یہ موقف رہا ہے کہ دہشت گردی کو کسی مذہب یا فرقے سے نا جوڑا جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن اور حزب مخالف کی دیگر جماعتیں یہ کہتی رہی ہیں کہ حکومت قانون میں مذہبی دہشت گردی کی بجائے کوئی مناسب اصتلاح استعمال کرے۔

اُدھر پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’پیپلز پارٹی کا اصولی موقف ہے کہ فوجی عدالتوں کی نگرانی کا کوئی عمل ہونا چاہیئے۔۔۔ ابھی تک ہم فوجی عدالتوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔۔۔ حکومت کو ہماری تجاویز پر غور کرنا ہو گا تو پھر ہم فوجی عدالتوں کی (بحالی و توسیع) کی تائید کریں گے۔‘‘

حکومت کی خواہش ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق آئینی ترمیم کو متفقہ طور پر منظور کرایا جائے تاکہ یہ تاثر ملے کے دہشت گردی کے خلاف تمام جماعتیں متحد ہیں۔

آئینی ترمیم کا مسودہ چھ مارچ کو پیش کیا جانا تھا لیکن حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کی طرف سے فوجی عدالتوں کے معاملے پر نو تجاویز سامنے آنے کے بعد یہ عمل موخر کر دیا گیا تھا۔

تاہم جمعرات کو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی بھی اس بات پر آمادہ ہو گئی ہے کہ فوجی عدالتوں میں دو سال کی توسیع کر دی جائے، لیکن پیپلز پارٹی کے ایک بیان کہا گیا کہ اُن کی جماعت اپنی نو تجاویز پر قائم ہے۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے رواں ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق اپنی جماعت کا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے، نو نکات پر مشتمل تجاویز پیش تھیں۔

اُن میں فوجی عدالتوں کی مدت ایک سال مقرر کرنے کے علاوہ ، ان عدالتوں میں فوج کے افسران کے ساتھ ساتھ ذیلی عدالت کے جج کو بھی شامل کرنے کی تجاویز شامل تھیں۔

واضح رہے کہ ابتدا میں فوجی عدالتوں میں تین سال کی توسیع کی تجویز سامنے آئی تھی لیکن بعد ازاں پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں فوجی عدالتوں میں دو سال کی توسیع پر اتفاق کیا گیا۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہہ چکے ہیں کہ موجودہ عدالتی نظام میں اصلاحات کا عمل ایک سال میں مکمل نہیں ہو سکے گا، اس لیے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے کہا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں فوجی عدالتوں کے قیام اور ان میں چلائے جانے والے مقدمات میں مبینہ طور پر انصاف کے تقاضے پورے نا کیے جانے سے متعلق سوالات اٹھاتی رہی ہیں۔

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے شریک چیئرمین کامران عارف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہم پہلے بھی اس کے خلاف ہیں اور ہم اب بھی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کا اگر خاتمہ کرنا ہے تو شفاف طریقے سے مقدمات چلانا ہوں گے۔‘‘

حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں ملزمان کو صفائی کا پورا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔

پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور میں 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کے ایک ہنگامی مشاورتی اجلاس میں دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی گئی۔

دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے 2015ء میں قائم کی گئی فوجی عدالتوں کی دو سالہ مدت رواں سال سات جنوری کو ختم ہو گئی تھی جس کے بعد سے ان عدالتوں میں توسیع کے لیے حکومت سیاسی جماعتوں سے مشاورت شروع کر دی تھی۔

گزشتہ سالوں میں فوجی عدالتوں میں دہشت گردی میں ملوث افراد سے متعلق 274 مقدمات بھیجے گئے تھے جن میں سے 161 مجرموں کو موت کی سزا سنائی گئی جب باقی افراد کو مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔