’جنگجوؤں کے حملوں کی وجہ افغانستان کی جانب سرحد کی غیر موثر نگرانی‘

پاکستانی فوج قبائلی علاقے میں

فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ پاکستان سے کہا جارہا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جائے کیونکہ یہ علاقہ افغانستان میں شورش کو ہوا دے رہاہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ”ہم سمجھتے ہیں کہ انتہاہ پسندی اور دہشت گردی کا بڑا ذریعہ شمالی وزیرستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں ہے ۔“

پاکستان میں فوج کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ شورش زدہ قبائلی پٹی میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی کی بنیادی وجہ نیٹو اور اافغان افواج کی طرف سے اپنی حدود میں سرحد کی غیر موثر نگرانی ہے۔

حکام کے مطابق اس ہفتے شمال مغربی ضلع دیر بالا میں ایک سرحد ی چوکی پر مہلک حملے میں ملوث سینکڑوں جنگجو بھی افغانستان سے آئے جو سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے دوران باآسانی واپس چلے گئے۔

امریکہ اور اس کی اتحادی افواج طویل عرصے سے الزام لگاتی آرہی ہیں کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاََ شمالی وزیرستان میں موجود عسکریت پسند افغانستان میں طالبان کے ساتھ مل کر مہلک حملے کررہے ہیں اور یہ کارروائیاں جنگ سے تباہ حال اس ملک میں امن او سلامتی کی بین الاقوامی کوششوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

لیکن حالیہ دنوں میں اس صورت حال میں بظاہر ایک ڈرامائی تبدیلی آئی ہے اور اب پاکستانی حکام کی طرف سے مسلسل یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ افغان اور اتحادی افواج اپنی جانب سرحد کی موثر نگرانی نہیں کررہی ہیں جس کا فائدہ اٹھا کر عسکریت پسند پاکستان کے سرحدی علاقوں میں شہری اور فوجی اہداف پر حملے کررہے ہیں۔

میجر جنرل اطہر عباس

فوج کے ترجمان میجر جنرل عباس کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے تک افغانستان کے کنڑ اور نورستان صوبوں میں نیٹو افواج نے سرحدی چوکیاں قائم کررکھی تھیں جن پر حملوں میں ملوث عسکریت پسند باجوڑ اور اس سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں کو استعمال کرر ہے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ کامیاب فوجی آپریشن کر کے باجوڑ اور مہمند کے اکثر علاقوں سے شدت پسندوں کے ان ٹھکانوں کا خاتمہ کردیا گیا جس نے سرحد کے دنوں جانب صورت حال کو مستحکم کرنے میں مدد دی ۔ لیکن جنرل عباس کے بقول پاکستانی فوج یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اتحادی افواج نے افغانستان کے کنڑ اور نورستان میں سرحدی چوکیوں کو کیو ں خالی کردیا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان سے کہا جارہا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جائے کیونکہ یہ علاقہ افغانستان میں شورش کو ہوا دے رہاہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ”ہم سمجھتے ہیں کہ انتہاہ پسندی اور دہشت گردی کا بڑا ذریعہ شمالی وزیرستان میں نہیں بلکہ افغانستان میں ہے ۔“



انھوں نے اعتراف کیا کہ وزیرستان کے علاقے میں شدت پسندوں کے کچھ ٹھکانے موجود ہیں تاہم فوجی ترجمان کے بقول یہ کہنا کہ اس علاقے میں موجود جنگجو دراصل افغانستان کے تیس سے زائد صوبوں میں عدم استحکام پیدا کررہے ہیں ”بے بنیاداور مبالغہ آرائی ہے“۔

پاکستان افغان سرحد کی نگرانی پر معمور پاکستانی فوجی

جنرل عباس نے ان الزامات کی ایک بار پھر تردید کی کہ شمالی وزیرستان میں موجود حقانی نیٹ ورک اور بعض دیگر انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں پاکستانی فوجی دوغلی پالیسی پر عمل پیر اہے۔”اس میں کوئی صداقت نہیں ہے اور یہ بالکل ایک غلط الزام ہے۔ جس شخص نے بھی ریاست پاکستان کے خلاف ہتھیار اُٹھایا ہے اس کے خلاف فوج حرکت میں آتی ہے اور فوج کا واضح مینڈیٹ ہر علاقے میں حکومت کی عمل داری قائم کرنا ہے۔ “

انھوں نے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود پاکستانی فوج قبائلی علاقوں میں کامیاب آپریشن کررہی ہے لیکن ان کارروائیوں میں اسے بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے جو سست رفتاری کی ایک بڑی وجہ ہے۔

” ہم اپنی سرزمین پر کارروائیاں کررہے ہیں اور ہمارا مقصد ہلاک یا گرفتار کرنا نہیں بلکہ ریاست کی عملداری قائم کرنا ہے۔ فاٹا کی سات میں سے چھ ایجنسیوں کے اکثر علاقوں سے عسکریت پسندوں کا صفایا کردیا گیا ہے لیکن فوجی آپریشن کی حتمی کامیابی کے لیے مقامی آبادی کی حمایت ناگزیر ہے ۔“