شمالی وزیرستان میں کارروائی کا فیصلہ خود کریں گے، پاکستان

جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج (فائل فوٹو)

پاکستان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ ملکی مفادات کو مدد نظر رکھ کرکیا جائے گا۔

جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں صورتحال سے غافل اور وہاں موجود شدت پسندوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں نے اب تک جو قربانیاں دی ہیں وہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان ہر ممکن کوششیں کر رہا ہے۔

ترجمان نے بتایا کہ اس وقت بھی شمالی وزیرستان میں 34 ہزار فوجی تعینات ہیں اور صورتحال میں بہتری لانے کے لیے ضروری کارروائیاں کر رہے ہیں ۔

تاہم وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بار پھر واضح کیا کہ جب حالات تقاضا کریں گے تو اس قبائلی علاقے میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف ایک بھرپور فوجی کارروائی میں دیر نہیں کی جائے گی لیکن ایسے کسی بھی اقدام کے وقت اور نوعیت کا تعین پاکستان خود کرے گا۔

انھوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں جو بھی فوجی کارروائی کی جائے گی اس میں پاکستان کے سلامتی کے مفادات کو اولین حیثیت حاصل ہو گی۔

ترجمان عبدالباسط

ترجمان عبدالباسط کی طرف سے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی پر پاکستان کا موقف ایک ایسے وقت دہرایا گیا ہے جب پاکستان اور امریکہ کے درمیان وزرائے خارجہ کی سطح پرا سٹرٹیجک ڈائیلاگ کا تیسرا دور واشنگٹن میں جاری ہے ، اور صدر براک اوباما اور ان کی انتظامیہ میں شامل عہدیداروں نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور دیگر اعلیٰ حکام سے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں تعاون مزید مضبوط بنانے پر بات چیت کی گئی ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں القاعدہ اور افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے موجود ہیں جن کو افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج پر مہلک حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

امریکہ نے مبینہ طور پر اس علاقے میں جنگجوؤں کے مشتبہ ٹھکانوں پر بغیر پائلٹ طیاروں کے ذریعے کیے جانے والے میزائل حملوں کا سلسلہ بھی تیز کر دیا ہے اور گذشتہ دو ماہ کے دوران یہاں دو درجن سے زائد حملے کیے جا چکے ہیں۔

جمعرات کو دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بار پھر امریکہ پر زور دیا کہ وہ ڈرون حملوں سے متعلق اپنی پالیسی کا از سرنو جائزہ لے کیوں کہ یہ کارروائیاں نہ صرف پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی بلکہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے نقصان دہ بھی ہیں۔