منصور اعجاز 26 جنوری کو پیش ہوں

  • ج

سینیٹر رضا ربانی

سپریم کورٹ نے 30 دسمبر 2011ء کو میمو اسکینڈل سے متعلق آئینی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس معاملے کی چھان بین کے لیے عدالتی کمیشن کا اعلان کیا تھا جس کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے چار ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے۔ سابق سفیر حسین حقانی نے میمو اسکینڈل سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت 17 جنوری کو سپریم کورٹ کا گیارہ رکنی بینچ کرے گا۔

متنازع ’میمو‘ اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے امریکی شہری منصور اعجاز، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا اور سابق سفیر حسین حقانی کو 23 جنوری تک اپنے تحریری جوابات داخل کرانے کی ہدایت کی ہے۔

یہ فیصلہ 17 رکنی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رضا ربانی کی زیر صدارت پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے کمیٹی کے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں اراکین کا موقف تھا کہ کسی بھی فیصلے پر پہنچنے سے قبل تمام فریقوں کو موقع دیا جائے تاکہ بعد میں کوئی کمیٹی پر انگلی نہ اٹھا سکے ۔

اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رضا ربانی نے بتایا کہ میمو کیس میں منصور اعجاز کو 26 جنوری کو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ کمیٹی تینوں فریقین کے تحریری بیانات کا بغور جائزہ لے گی اور اسی کی روشنی میں اُن سے سوال و جواب ہوں گے ۔ ”اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ بلیک بیری کمپنی ریسرچ ان موشن (آر آئی ایم) کے ساتھ جو خط و کتابت اس حوالے سے کی گئی ہے اس سے متعلق بھی کمیٹی میں جواب جمع کرائیں۔“

پارلیمانی کمیٹی کا آئندہ اجلاس 26 جنوری کو ہوگا ۔

ادھر بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں قائم تین رکنی عدالتی کمیشن کا اجلاس بھی پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوا، توقع تھی کہ امریکی شہری منصور اعجاز بھی کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے لیکن وہ نہیں آئے۔

منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے عدالتی کمیشن کو بتایا کہ ان کے مؤکل کو دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے وہ پاکستان نہیں آئے ہیں اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کمیشن کے صبر کا کا مزید امتحان نا لیا جائے۔

منصور اعجاز

امریکی حکام کو لکھے گئے متنازع ’میمو‘ کا انکشاف منصور اعجاز نے اپنے ایک اخباری مضمون کے ذریعے کیا تھا اور گزشتہ سماعت کے موقع پر عدالتی کمیشن نے منصور اعجاز کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس کے علاوہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ بھی ان کو سکیورٹی فراہم کرے گا۔ عدالتی تحقیقاتی کمیشن کا اجلاس 24 جنوری کو ہو گا۔

عدالتی کمیشن کی کارروائی کے بعد منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ نے صحافیوں سے گفتگو میں اصرار کیا کہ ان کے مؤکل پاکستان ضرورت آئیں گے۔ ’’منصور اعجاز کا یہ تہیہ ہے کہ وہ پاکستان میں آئے اور یہاں سچ کا سچ اور جھوٹ کا جھوٹ واضح ہو جائے گا۔ عدالت کو بتایا دیا گیا ہے کہ ان (منصور اعجاز) کی آمد کا شیڈول نہیں دیا جائے گا۔‘‘

متنازع ’میمو‘ کے مبینہ مرکزی کردار سابق سفیر حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نے کہا کہ منصور اعجاز کے وکیل نے کمیشن کو بتایا کہ وہ 16 جنوری کو اسلام آباد پہنچیں گے لیکن ان کے نا آنے سے کمیشن کی تحقیقات میں تاخیر ہو رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے 30 دسمبر 2011ء کو میمو اسکینڈل سے متعلق آئینی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے اس معاملے کی چھان بین کے لیے عدالتی کمیشن کا اعلان کیا تھا جس کو اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے چار ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے۔ سابق سفیر حسین حقانی نے میمو اسکینڈل سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی ایک درخواست بھی دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت 17 جنوری کو سپریم کورٹ کا گیارہ رکنی بینچ کرے گا۔

صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور حکومت کے دیگر نمائندے میمو کو محض کاغذ کا ایک ’’ بے وقعت ٹکڑا‘‘ اور اسے جمہوری نظام کے خلاف سازش کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

لیکن فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہان نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنے بیانات حلفی میں میمو کو ایک حقیقیت قرار دے کر اس کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔ حکومت اور فوج کے درمیان میمو پر یہ اختلاف رائے ریاست کے دونوں اداروں کے درمیان حالیہ کشیدگی کی بڑی وجہ بنا۔