لاہور میں قائم دل کے امراض کے ایک بڑے سرکاری اسپتال پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی فراہم کردہ ادویات کے ردعمل سے صوبائی حکام کے بقول کم ازکم 23 دل کے مریضوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے۔ جب کہ ایک سو سے زیادہ ایسے افراد مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
مقامی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تین ہفتے پہلے ایسے مریض آنے شروع ہوئے جن کو ناک، منہ سے خون آرہا تھا اور ان کے خون میں پلیٹ لٹ بہت کم تھے اور بعض کی رنگت سیاہ پڑ چکی تھی۔
ڈاکٹروں کے بقول پہلے یہ شبہ ہوا کہ ممکنہ طور پر یہ ڈینگی بخار کی کوئی بگڑی ہوئی شکل ہے تاہم جب معلوم ہوا کہ یہ سب دل کے مریض ہیں اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی ڈسپنسری کی ادویات ان کے زیر استعمال ہیں تو صورت حال واضح ہونا شروع ہوئی۔ ڈاکٹروں نے فوری طور طور پر ان ادویات کا استعمال روک دیا۔
پنجاب حکومت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک 18 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے جس کےسربراہ جناح اسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر جاوید اکرم ہیں، انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’’جن لوگوں نے اس اسپتال سے 15 دسمبر کے بعد یہ دوا لی ہے وہ اسے استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں یہ دوا واپس کریں اور وہاں سے اس کا متبادل مفت حاصل کریں۔ جناح اسپتال میں بھی یہ دوا واپس کرکے دوسری حاصل کی جاسکتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ ان ادویات کے نمونے کو اندرون اور بیرون ملک تشخیص کے لیے بھیجا جارہا ہے تاکہ ذمہ داری کا تعین ہوسکے کہ کس ادویہ ساز کمپنی نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کمیٹی حتمی نتائج آنے کے بعد ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی سفارش کرے گی۔
ڈاکٹر جاوید نے کہا کہ ماہرین اس شبے کا اظہار کر رہے ہیں کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو فراہم کی گئی ان چار ادویات میں تیاری کے وقت کوئی ملاوٹ ہوگئی ہے جس سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ۔ انھوں نے کہا کہ بازار میں دستیاب دل کے امراض کی ایسی دوائیاں بالکل محفوظ ہیں۔