پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سابق سیکریٹری جنرل مظہر عباس موجودہ صورتحال کو صحافت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جس کا ذمہ دار بیشتر سینئیر صحافی اور مبصرین نجی ٹی وی چینلز کے درمیان کاروباری مفادات کی جنگ اور صحافتی اقدار کی پاسداری نا کرنے کو قرار دیتے ہیں۔
ملک کے ایک معروف ٹی وی چینل جیو کے سینئیر صحافی حامد میر پر گزشتہ ماہ قاتلانہ حملے کے بعد چینل کی طرف سے اپنی نشریات میں مسلسل کئی گھنٹے تک اس کا الزام انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ پر عائد کیا جاتا رہا۔
جس پر ملک کے بیشتر دیگر نجی نشریاتی اداروں نے ’جیو‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور وزارت دفاع کی طرف سے بھی جیو ٹی وی کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست کی گئی۔
مگر اس کے کچھ ہی ہفتوں کے بعد جیو کے خلاف مظاہروں اور اسے بند کرنے کے مطالبات میں اس وقت شدت آئی جب چینل کے ایک پروگرام میں مبینہ طور پر چند اسلامی شخصیات کی توہین کی گئی۔
ان مظاہروں میں مذہبی جماعتیں پیش پیش ہیں اور اسلام آباد میں ٹی وی چینل کے مالک میر شکیل الرحمٰن سمیت پروگرام کی میزبان شائستہ لودھی، ادکارہ وینا ملک اور ان کے شوہر کے خلاف توہین مذہب اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ہے۔
صحافیوں کی ملک میں سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سابق سیکریٹری جنرل مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس صورتحال کو صحافت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’جیو کی نشریات پر تنقید ہو رہی ہے کہ پورا پروفیشن متاثر ہو رہا ہے۔ جس میں خبر خود (اس کا شکار) بن گئی ہے۔‘‘
ادھر حامد میر نے پیر کو جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کروایا جو کہ کراچی میں ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے اور پھر ان کی جانب سے اس حملے کے آئی ایس آئی پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے۔ تاہم اس موقع پر حامد میر نے میڈیا سے بات نہیں کی۔
سینئیر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ صحافتی اقدار کو پروان چڑھانے کے لیے پاکستان میڈیا میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
’’آپ نیوز چینل کو نیوز چینل ہی رہنے دیں اور اس پر مضبوط ایڈیٹوریل کنٹرول ہو۔ اگر نہیں رکھتے تو بھر بعض دفعہ آپ ایسی غلطی کر دیتے ہیں کہ جس کا خمیازہ آپ بھگت رہے ہیں جیسے جیو کو جو بحران کا سامنا ہے۔۔۔۔ اس سے پہلے دو تین چینلز میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں۔‘‘
پاکستان میں حقوق انسانی کی غیر جانبدار تنظیم ایچ آر سی پی نے بھی ایک بیان میں جیو کو بند کرنے کے لیے جاری مہم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو جیو کے خلاف اکسانے سے اس کے ملازمین کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
تنظیم کی سربراہ زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ اس رجحان سے ملک میں گزشتہ سالوں میں ذرائع ابلاغ کو حاصل ہونے والی آزادی پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔
’’جب انہیں یہ خیال ہو کہ توہین اسلام کے الزامات لگ سکتے ہیں یا کچھ اور رپورٹ کیا تو کہا جائے گا کہ حب وطن نہیں ہیں، غدار ہیں اگر وہ افواج کے خلاف کچھ کہیں گے۔ تو پھر ظاہر ہے کہ اس سے کچھ سلیف سنسر شپ آجاتی ہے۔ لیکن میڈیا کو بھی ذمہ دار ہونا چاہیئے کہ انہیں بے بنیاد الزامات نہیں لگانے چاہیئں۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کو بہت فروغ حاصل ہوا تاہم کسی ضابطہ اخلاق کے نا ہونے پر مختلف حلقوں سے کئی بار احتجاج بھی کیے گئے اور خود صحافی برادری نے بھی اس کا اعتراف کیا مگر اب تک اس بارے میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
ملک کے ایک معروف ٹی وی چینل جیو کے سینئیر صحافی حامد میر پر گزشتہ ماہ قاتلانہ حملے کے بعد چینل کی طرف سے اپنی نشریات میں مسلسل کئی گھنٹے تک اس کا الزام انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ پر عائد کیا جاتا رہا۔
جس پر ملک کے بیشتر دیگر نجی نشریاتی اداروں نے ’جیو‘ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور وزارت دفاع کی طرف سے بھی جیو ٹی وی کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست کی گئی۔
مگر اس کے کچھ ہی ہفتوں کے بعد جیو کے خلاف مظاہروں اور اسے بند کرنے کے مطالبات میں اس وقت شدت آئی جب چینل کے ایک پروگرام میں مبینہ طور پر چند اسلامی شخصیات کی توہین کی گئی۔
ان مظاہروں میں مذہبی جماعتیں پیش پیش ہیں اور اسلام آباد میں ٹی وی چینل کے مالک میر شکیل الرحمٰن سمیت پروگرام کی میزبان شائستہ لودھی، ادکارہ وینا ملک اور ان کے شوہر کے خلاف توہین مذہب اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ہے۔
صحافیوں کی ملک میں سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سابق سیکریٹری جنرل مظہر عباس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس صورتحال کو صحافت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’جیو کی نشریات پر تنقید ہو رہی ہے کہ پورا پروفیشن متاثر ہو رہا ہے۔ جس میں خبر خود (اس کا شکار) بن گئی ہے۔‘‘
ادھر حامد میر نے پیر کو جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کروایا جو کہ کراچی میں ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے اور پھر ان کی جانب سے اس حملے کے آئی ایس آئی پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے۔ تاہم اس موقع پر حامد میر نے میڈیا سے بات نہیں کی۔
سینئیر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ صحافتی اقدار کو پروان چڑھانے کے لیے پاکستان میڈیا میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
’’آپ نیوز چینل کو نیوز چینل ہی رہنے دیں اور اس پر مضبوط ایڈیٹوریل کنٹرول ہو۔ اگر نہیں رکھتے تو بھر بعض دفعہ آپ ایسی غلطی کر دیتے ہیں کہ جس کا خمیازہ آپ بھگت رہے ہیں جیسے جیو کو جو بحران کا سامنا ہے۔۔۔۔ اس سے پہلے دو تین چینلز میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں۔‘‘
پاکستان میں حقوق انسانی کی غیر جانبدار تنظیم ایچ آر سی پی نے بھی ایک بیان میں جیو کو بند کرنے کے لیے جاری مہم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو جیو کے خلاف اکسانے سے اس کے ملازمین کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے۔
تنظیم کی سربراہ زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ اس رجحان سے ملک میں گزشتہ سالوں میں ذرائع ابلاغ کو حاصل ہونے والی آزادی پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔
’’جب انہیں یہ خیال ہو کہ توہین اسلام کے الزامات لگ سکتے ہیں یا کچھ اور رپورٹ کیا تو کہا جائے گا کہ حب وطن نہیں ہیں، غدار ہیں اگر وہ افواج کے خلاف کچھ کہیں گے۔ تو پھر ظاہر ہے کہ اس سے کچھ سلیف سنسر شپ آجاتی ہے۔ لیکن میڈیا کو بھی ذمہ دار ہونا چاہیئے کہ انہیں بے بنیاد الزامات نہیں لگانے چاہیئں۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کو بہت فروغ حاصل ہوا تاہم کسی ضابطہ اخلاق کے نا ہونے پر مختلف حلقوں سے کئی بار احتجاج بھی کیے گئے اور خود صحافی برادری نے بھی اس کا اعتراف کیا مگر اب تک اس بارے میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔