ذرائع ابلاغ کے احتساب کے مطالبات میں اضافہ

پاکستان کی مشہور کاروباری شخصیت ملک ریاض کا ’دنیا‘ نامی نجی ٹی وی چینل پر بدھ کی شب نشر ہونے والا انٹرویو ملک بھر میں بدستور موضوع بحث بنا ہوا ہے کیوں کہ اس متنازع پروگرام کے میزبانوں کے غیر مناسب رویے کے بعد ذرائع ابلاغ کی غیر جانبداری سوالیہ نشان بن گئی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز کے دو بڑے ناموں، مبشر لقمان اور مہر بخاری، کی ملک ریاض جیسی منتازع شخصیت سے بے تکلف گفتگو اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پوچھے گئے اُن کے سوالات کے بعد سیاسی اور دانشور حلقے بھی میڈیا کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

حزبِ اقتدار و اختلاف کے رہنما ذرائع ابلاغ کے کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہیں کیوں کہ اُن کے بقول ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں ٹی وی چینلز جھوٹ اور مبالغہ آرائی کا سہارا لیتے ہیں۔

حکمران پیلیز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی یاسمین رحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں کئی متنازع خبریں منظر عام پر آ چکی ہیں۔

’’میڈیا ریاست کا اہم ستون بن چکا ہے اور اس نے عوام کو درست معلومات پہنچانی ہیں تاکہ ان میں بے چینی اور تشویش نا پھیلے اور (معاشرے میں) غیر یقینی نا ہو اور ملک میں نظام احسن انداز میں چلے لیکن بدقسمتی ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے ... یقیناً احتساب بھی ہونا چاہیئے، سچ بھی سامنے آنا چاہیئے اور آئندہ کے لیے بڑا سخت ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔‘‘

ملک میں صحافتی برادری کی مرکزی تنظیم ’پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ (پی ایف یو جے) نے تازہ واقعے پر کارروائی کرتے ہوئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس کی سربراہی تنظیم کے سیکرٹری جنرل محمد امین یوسف کر رہے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ کمیٹی آئندہ ایک ہفتے کے دوران اپنی تحقیقات مکمل کرکے حقائق منظر عام پر لائے گی۔

’’کالی بھیڑیں کہیں بھی ہوں ہم اس کے خلاف ہیں، جو بھی لوگ اس قسم کی ہرکتوں میں ملوث ہیں چاہے وہ صحافی ہوں، میزبان ہوں، حتیٰ کے مالکان ہی کیوں نا ہوں جو میڈیا کو بیچنا چاہتے ہوں ان کا احتساب ہونا چاہیئے، پی ایف یو جے اس کے حق میں ہے۔‘‘

امین یوسف نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ ملک ریاض کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اُن صحافیوں کی فہرست عدالت کے سامنے پیش کریں جنھیں مبینہ طور پر وہ بھاری رقوم اور دیگر مراعات دیتے آئے ہیں۔

پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے احتساب کے مطالبات میں یہ اضافہ ایسے وقت ہوا ہے جب ملک رفتہ رفتہ عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اور مبصرین یہ واضح کرتے آئے ہیں کہ ووٹروں کی رائے قائم کرنے اور پولنگ اسٹیشنز پر دھاندلی کی نشاندہی کرنے میں ذرائع ابلاغ کا کلیدی کردار ہوگا۔