پاکستانی فلمی صنعت کے منفرد شاعر خواجہ پرویز کا انتقال پیر کے روز لاہور کے ایک ہسپتال میں ہوا جہاں وہ کچھ عرصہ سے سانس کی تکلیف کی وجہ سے زیر علاج تھے۔ ان کی عمر 76برس تھی۔
خواجہ پرویز مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئے جہاں ان کا قیام گوالمنڈی میں رہا۔ فلمی صنعت سے اگرچہ وہ پچاس کی دہائی ہی میں وابستہ ہوگئے تھے مگر ان کو فلمی شاعر کے طور پر شہرت ان کے 1964ء میں تحریر کیے گئے نغمے ”تم ہی محبوب میرے میں کیوں نہ تجھے پیار کروں“ سے ملی۔
خواجہ پرویز کہا کرتے تھے کہ یہ ضروری نہیں کہ اچھا گانا بننے کے لیے بہت زیادہ وقت صرف ہو۔ اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا ”شبنم ہماری بہت بڑی آرٹسٹ ہیں ، میں ان کے گھر گیا ایک دن تو ناشتے کے دوران ان کے شوہر روبن گھوش نے ہارمونیم پر ایک دھن بجائی۔ میں نے کہا کہ یہ مجھے بڑی پسند آئی تو گھوش نے کہا کہ پھر لکھنے کی کوشش کریں تو ہم نے سات منٹ اس پر کام کیا اور وہ گانا بن گیا، پیار بھرے دو شرمیلے نین“۔
خواجہ پرویز کے پنجابی گیت بھی اردو نغموں کی طرح ازحد مقبول رہے۔ ان میں ”سُن وے بلوری اکھ والیا“ اور ”میری چیچی دا چھلہ ماہی لا ہ لیا“جیسے نغمے شامل ہیں۔ مسرت نذیر کے شادی بیاہ کے گیتوں کی معروف البم کے نغمے خواجہ پرویز نے تحریر کیے تھے اور استاد نصرت فتح علی خان نے بھی خواجہ پرویز کے کئی مقبول نغمے گائے جن میں ”سانوں اک پل چین نہ آوے سجنا تیرے بنا“ بھی شامل ہے۔
ملکہ ترنم نورجہاں ، مہدی حسن اور فلمی صنعت کے تقریباً سب ہی اہم گلوکاروں نے خواجہ پرویز کے لکھے ہوئے گیت گائے۔
معروف فلمی ہدایت کار الطاف حسین کی چالیس سے زائد فلموں کے لیے خواجہ پرویز نے گیت تحریر کیے۔ الطاف حسین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بے مثال شاعر تھے ” میں نے تقریباً اردو اور پنجابی گیت لکھوائے بہت سے شاعروں سے مگر اتنی تیزی سے سچوایشن کو پِک کرتے ہوئے گانا لکھنا صرف خواجہ پرویز کا ہی کمال تھا۔“
حالیہ برسوں میں پاکستانی فلمی صنعت میں بحران کی وجہ سے فلمی گانے لکھنا تو تقریباً ختم تھا تاہم خواجہ پرویز نے اس دوران کئی مشہور اسٹیج ڈرامے تحریر کیے اور ان دنوں وہ اسٹیج شوز کی میزبانی بھی کررہے تھے۔
آڈیو رپورٹ: