لیکن، زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ لانگ مارچ کو بیک وقت کئی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے 14 جنوری کے لانگ مارچ کی تیاریاں عروج پر ہیں، یہاں تک کہ اس کے شیڈول اورمقامات کابھی اعلان کیا جا چکا ہے، لیکن زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ لانگ مارچ کو بیک وقت کئی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
سخت ترین موسم
پاکستان اور خاص کر صوبہ پنجاب میں سردی کا 50سالہ ریکارڈ توٹ گیا ہے۔ ان دنوں یہاں جسم میں سرایت کرجانے والی سردی اور آنکھیں دھندلادینے والی کہر پڑرہی ہے۔ محکمہ موسمیات کے اعلیٰ عہدیدار محمد حنیف کے مطابق منگل کو صوبے کے متعدد شہروں کا درجہ حرارت غیر معمولی طور پر کم رہا۔ کئی شہروں میں تو درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گر گیا ۔ اسلام آباد اور ملک کے بالائی علاقوں میں 11جنوری سے 19جنوری تک بارشوں کاایک نیا سلسلہ بھی شروع ہو رہا ہے جس سے سردی اور دھند میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
ایسے موسم میں پنجاب کی عوام کے لئے تو شاید پنجاب کی سردی زیادہ تکلیف دہ ثابت نہ ہو لیکن کراچی اور سندھ کے عوام کے لئے یہ سردی کسی عذاب سے کم نہیں ہو گی۔
غیر معمولی سیکورٹی ، 25کروڑ روپے کا مطالبہ
لانگ مارچ کے شرکا کو جو دوسرا بڑا مسئلہ درپیش ہوگا وہ سیکورٹی کا ہے۔ وزارت داخلہ نے وفاقی حکومت سے لانگ مارچ کے سیکورٹی انتظامات کے لئے 25 کروڑ روپے اور دس ہزار سیکورٹی اہلکاروں کا مطالبہ کر دیا ہے۔
سیکورٹی کے حوالے سے ہی اسلام آباد میں وزیر داخلہ رحمن ملک کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس ہوچکا ہے جس میں نہ صرف لانگ مارچ کے شرکا کو درپیش خطرات کا جائزہ لیا گیا بلکہ سیکورٹی کی مد میں مانگی گئی رقم کا معاملہ وزارت خزانہ کو بھیجنے کی بھی ہدایت کی۔ یہ رقم لانگ مارچ میں تعینات کیے جانے والے 10 ہزار سیکورٹی اہلکارروں کو کھانا، پیٹرول اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے پر خرچ کی جائے گی ۔
سیاسی اور دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، پارلیمنٹیرینز، سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز اور دیگر اہم ترین شخصیات اور غیر ملکی سفارتکار رہائش پذیر ہیں وہاں لانگ مارچ انتہائی رسکی ہو سکتا ہے ۔
لاکھوں افراد کے لئے انتظامات کا مسئلہ
اگر اعلان کردہ افراد کی تعداد مارچ میں شریک ہوگئی تو ان کے لئے کھانے پینے اور رہائش کے انتظامات ازخود نہایت مشکل ہوں گے۔ اگرشرکا نے زیادہ دنوں تک اتنی ہی بڑی تعداد میں قیام کیا تو انتظامیہ کے پاس صفائی ستھرائی کا عملہ بھی کم پڑ جائے گا ۔ ایسے میں بیماریاں بھی پھوٹ سکتی ہیں۔
پاکستان کے ایک سیاسی تجزیہ نگار محمد صالح ظافر کے مطابق اگرشرکا کی اعلان کردہ تعداد اسلام آباد پہنچ گئی توشہر کے سب سے بڑے تجارتی علاقے ’بلیوایریا‘ کو ٹائلٹ میں تبدیل کرناپڑے گا۔
خدشات و خطرات
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ مارچ میں دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ لہذا شرکا ء کے لئے سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے ہیں یہاں تک کہ بغیر شناخت کے کسی کو داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔ گوکہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کا یہ بیان بھی منگل کو سامنے آچکا ہے کہ انہوں نے لانگ مارچ کے حوالے سے کوئی دھمکی نہیں دی لیکن رحمن ملک پھر بھی کوئی رسک لینا نہیں چاہتے ۔
لانگ مارچ کے روٹ کا اعلان
ان تمام تلخ حقائق کے باوجود تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان عبدالحفیظ چوہدری نے منگل کو لانگ مارچ کے روٹ کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ لانگ مارچ کے شرکا 13 جنوری کی صبح نو بجے ڈاکٹر طاہرالقادری کی لاہور کی رہائشگاہ سے ایک قافلے کی صورت میں نکلیں گے۔ قافلے کا پہلا پڑاؤ مریدکے میں ہو گا جبکہ لانگ مارچ گجرانوالہ، گجرات، کھاریاں، دینا، گوجر خان اور دیگر مقامات سے ہوتا ہوا راولپنڈی پہنچے گا اور 14 جنوری کو اس کا حتمی پڑاوٴ اسلام آباد میں ہوگا۔
سخت ترین موسم
پاکستان اور خاص کر صوبہ پنجاب میں سردی کا 50سالہ ریکارڈ توٹ گیا ہے۔ ان دنوں یہاں جسم میں سرایت کرجانے والی سردی اور آنکھیں دھندلادینے والی کہر پڑرہی ہے۔ محکمہ موسمیات کے اعلیٰ عہدیدار محمد حنیف کے مطابق منگل کو صوبے کے متعدد شہروں کا درجہ حرارت غیر معمولی طور پر کم رہا۔ کئی شہروں میں تو درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گر گیا ۔ اسلام آباد اور ملک کے بالائی علاقوں میں 11جنوری سے 19جنوری تک بارشوں کاایک نیا سلسلہ بھی شروع ہو رہا ہے جس سے سردی اور دھند میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
ایسے موسم میں پنجاب کی عوام کے لئے تو شاید پنجاب کی سردی زیادہ تکلیف دہ ثابت نہ ہو لیکن کراچی اور سندھ کے عوام کے لئے یہ سردی کسی عذاب سے کم نہیں ہو گی۔
غیر معمولی سیکورٹی ، 25کروڑ روپے کا مطالبہ
لانگ مارچ کے شرکا کو جو دوسرا بڑا مسئلہ درپیش ہوگا وہ سیکورٹی کا ہے۔ وزارت داخلہ نے وفاقی حکومت سے لانگ مارچ کے سیکورٹی انتظامات کے لئے 25 کروڑ روپے اور دس ہزار سیکورٹی اہلکاروں کا مطالبہ کر دیا ہے۔
سیکورٹی کے حوالے سے ہی اسلام آباد میں وزیر داخلہ رحمن ملک کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس ہوچکا ہے جس میں نہ صرف لانگ مارچ کے شرکا کو درپیش خطرات کا جائزہ لیا گیا بلکہ سیکورٹی کی مد میں مانگی گئی رقم کا معاملہ وزارت خزانہ کو بھیجنے کی بھی ہدایت کی۔ یہ رقم لانگ مارچ میں تعینات کیے جانے والے 10 ہزار سیکورٹی اہلکارروں کو کھانا، پیٹرول اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے پر خرچ کی جائے گی ۔
سیاسی اور دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد جیسے شہر میں جہاں ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، پارلیمنٹیرینز، سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز اور دیگر اہم ترین شخصیات اور غیر ملکی سفارتکار رہائش پذیر ہیں وہاں لانگ مارچ انتہائی رسکی ہو سکتا ہے ۔
لاکھوں افراد کے لئے انتظامات کا مسئلہ
اگر اعلان کردہ افراد کی تعداد مارچ میں شریک ہوگئی تو ان کے لئے کھانے پینے اور رہائش کے انتظامات ازخود نہایت مشکل ہوں گے۔ اگرشرکا نے زیادہ دنوں تک اتنی ہی بڑی تعداد میں قیام کیا تو انتظامیہ کے پاس صفائی ستھرائی کا عملہ بھی کم پڑ جائے گا ۔ ایسے میں بیماریاں بھی پھوٹ سکتی ہیں۔
پاکستان کے ایک سیاسی تجزیہ نگار محمد صالح ظافر کے مطابق اگرشرکا کی اعلان کردہ تعداد اسلام آباد پہنچ گئی توشہر کے سب سے بڑے تجارتی علاقے ’بلیوایریا‘ کو ٹائلٹ میں تبدیل کرناپڑے گا۔
خدشات و خطرات
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ مارچ میں دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ لہذا شرکا ء کے لئے سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے ہیں یہاں تک کہ بغیر شناخت کے کسی کو داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔ گوکہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کا یہ بیان بھی منگل کو سامنے آچکا ہے کہ انہوں نے لانگ مارچ کے حوالے سے کوئی دھمکی نہیں دی لیکن رحمن ملک پھر بھی کوئی رسک لینا نہیں چاہتے ۔
لانگ مارچ کے روٹ کا اعلان
ان تمام تلخ حقائق کے باوجود تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان عبدالحفیظ چوہدری نے منگل کو لانگ مارچ کے روٹ کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ لانگ مارچ کے شرکا 13 جنوری کی صبح نو بجے ڈاکٹر طاہرالقادری کی لاہور کی رہائشگاہ سے ایک قافلے کی صورت میں نکلیں گے۔ قافلے کا پہلا پڑاؤ مریدکے میں ہو گا جبکہ لانگ مارچ گجرانوالہ، گجرات، کھاریاں، دینا، گوجر خان اور دیگر مقامات سے ہوتا ہوا راولپنڈی پہنچے گا اور 14 جنوری کو اس کا حتمی پڑاوٴ اسلام آباد میں ہوگا۔