سرحد پار سے ’دہشت گردوں کا حملہ‘، پاکستان کا افغانستان سے احتجاج

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ دہشت گرد اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح کے حملوں سے قوم کے عزم کو کمزور کر سکتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔

پاکستان نے قبائلی علاقوں مہمند اور خیبر ایجنسی میں سرحد پار سے دہشت گردوں کے مہلک حملے پر افغانستان سے احتجاج کیا ہے۔

اسلام آباد میں تعینات افغانستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن عبدالناصر یوسفی کو وزارت خارجہ طلب کر کے اُنھیں پاکستانی تشویش و احتجاج سے آگاہ کیا گیا۔

بیان کے مطابق مہمند ایجنسی میں چوکیوں پر حملے میں پانچ اہلکاروں جب کہ خیبر ایجنسی میں سرحد پار افغانستان سے دہشت گردوں کی فائرنگ سے ایک فوجی کی ہلاکت پر پاکستان کی طرف سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق افغان حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ان واقعات کی تحقیقات کر کے اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، تاکہ آئندہ ایسے حملوں سے بچا جا سکے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ سرحد کے آرپار دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے دوطرفہ سرحد کی موثر نگرانی بہت اہم ہے۔

واضح رہے کہ مہمند ایجنسی کے سرحدی علاقے میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب پاکستانی حکام کے مطابق سرحد پار افغانستان کی طرف سے حملہ کیا گیا تھا، جس میں پانچ پاکستانی فوجی مارے گئے۔

تاہم وزارت خارجہ کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ خیبر ایجنسی میں پاکستانی فوجی کب سرحد پار سے دہشت گردوں کی فائرنگ کی زد میں آیا۔

مہمند ایجنسی میں تازہ حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کی ہے۔

اس تنظیم کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا کہ جماعت الاحرار کے جنگجوؤں نے سوران درہ کے مقام پر تین چوکیوں پر بیک وقت بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔

دریں اثنا وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گرد حملے میں پانچ فوجیوں کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سرحدوں اور اندرون ملک باوردی اہلکاروں کی ان قربانیوں سے پاکستان مزید مضبوط ہو گا۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ دہشت گرد اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح کے حملوں سے قوم کے عزم کو کمزور کر سکتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ آپریشن ’ردالفساد‘ اُن تمام دہشت گردوں کے خلاف ہے جو اندرون ملک یا پھر ملک کے باہر سے کام کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان دشمن اور خطرناک نظریات کا پرچار کرنے والوں کو ختم کیا جائے گا۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں فروری کے وسط میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں سے بیشتر کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کی تھی۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ جماعت الاحرار کی قیادت سرحد پار افغانستان میں روپوش ہے، جہاں سے ملک میں حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

گزشتہ ماہ پاکستان نے افغان عہدیداروں کو 76 ایسے مفرور دہشت گردوں کی فہرست فراہم کی تھی جو افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔

جس کے جواب میں افغانستان کی طرف سے بھی دہشت گردوں اور اُن کے ٹھکانوں کی ایک فہرست پاکستان کو فراہم کی گئی، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ شدت پسند پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے اور خطے میں دیرپا امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ الزام تراشی کی بجائے پاکستان اور افغانستان مشترکہ طور پر دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق اور سنجیدہ کارروائی کریں۔­­