پاکستان کی وفاقی حکومت کی طویل عرصے سے جاری کوششوں کے بعد بالآخر قطر سے ’ایل این جی‘ یعنی مائع قدرتی گیس کی پہلی کھیپ جمعرات وطن پہنچ گئی ہے۔
اگرچہ ماضی میں بھی ’ایل این جی‘ کی درآمد کے لیے کوششیں کی جاتی رہیں لیکن اس کی درآمد کے حوالے ٹھوس پیش رفت نا ہو سکی۔
ساٹھ ہزار ٹن مائع قدرتی گیس کی اس کھیپ کو پاکستان میں صارفین کے لیے قابل استعمال بنانے کے لیے ایک خاص عمل سے گزارا جائے گا اور اس مقصد کے لیے کراچی میں خصوصی ٹرمینل بھی بنا دیا گیا ہے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل ہی یہ اعلان کیا تھا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانا اُس کی ترجحیات میں شامل ہو گا، لیکن کوششوں کے باجود بجلی اور گیس کی قلت کو کم کرنے کے حوالے حکومت کو تاحال نمایاں کامیابی نہیں ملی ہے۔
حالیہ برسوں میں بجلی کے علاوہ ملک میں گیس کی قلت سے بھی گھریلو اور صنعتی صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
اس تناظر میں حکومت کا کہنا ہے کہ مائع قدرتی گیس کی درآمد ایک طویل عرصے کے بعد ملک میں توانائی کے بحران میں خاطر خواہ کمی لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ درآمد شدہ مائع گیس پہلے مرحلے میں اُن بجلی گھروں کو فراہم کی جائے گی جو اس وقت فرنس آئل اور ڈیزل کی مدد سے چلائے جا رہے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ’ایل این جی‘فرنس آئل اور ڈیزل کی نسبت ایک سستا ایندھن ہے جس سے ناصرف بجلی کی پیداواری لاگت کم ہو گی بلکہ قدرتی گیس کا استعمال ماحول دوست بھی ہے۔
تاہم قطر سے ’ایل این جی‘ کی درآمد کے معاہدے پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے تاحال واضح اعلان نہیں کیا گیا کہ مائع گیس کس قیمت پر درآمد کی جا رہی ہے اور اُن کے بقول ایسا کرنے سے اس معاہدے کی شفافیت سے متعلق کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے توانائی سے متعلق اُمور کے ماہر ارشد عباسی نے کہا کہ اب تک سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق قطر سے گیس مہنگے داموں خریدی جا رہی ہے جس سے اُن کے بقول توانائی کے بحران پر قابو پانے میں خاطر خواہ مدد نہیں ملے گی۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس معاہدے کے بارے میں تفصیلات فراہم کر دے تو اس کی خوبیوں اور خامیوں کا بہتر طریقے سے تجزیہ کیا جا سکے گا۔
پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی اپنے بیانات میں ان قیاس آرائیوں کی نفی کرتے رہے ہیں کہ قطر سے گیس مہنگے داموں خریدی جا رہی ہے لیکن اُنھوں نے قیمت کے تعین کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی اعلان نہیں کیا جس سے شکوک و شہبات نے جنم لیا ہے۔