پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی ضلع ملتان میں توہین رسالت کے ایک ملزم کی وکالت کرنے والے وکیل شہباز گرمانی کو ’دھمکی آمیز‘ خط ملا ہے، جس میں اُنھیں ملزم کا دفاع کرنے سے باز رہنے کو کہا گیا ہے۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے وکیل شہباز گرمانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا اُنھیں جو خط ملا اُس میں بھیجنے والوں نے اپنا تعلق ’دولت اسلامیہ‘ سے بتایا اور خط کے کاغذ پر بھی اسی تنظیم ’داعش‘ کا نام درج تھا۔
شہباز گرمانی کے بقول اردو میں تحریر کردہ یہ خط اُنھیں تین اور چار دسمبر کی درمیانی شب کو ملا جس میں یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر اُنھوں نے توہین رسالت کے ملزم کی وکالت جاری رکھی تو اسکے سنگین نتائج نکلیں گے۔
دولت اسلامیہ کے جنگجو شام اور عراق میں سرگرم ہیں جہاں اُنھوں نے وسیع علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اس تنظیم کو عالمی خطرہ قرار دے کر اس کے خلاف فضائی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شہباز گرمانی کے بقول اُن کے گھر پر لگ بھگ نو بجے فائرنگ کی گئی تھی جس کے بعد نصف شب کو دروازہ کٹھکٹا کر کچھ لوگ دھمکی آمیز خط چھوڑ کر چلے گئے۔
’’جب ساڑھے بارہ بجے خط ملا، تو اس میں یہ تحریر تھا کہ فائرنگ ہم نے کروائی ہے۔ تمھیں یہ دکھانے کے لیے ہمیں تمھارے ہر ٹھکانے کا علم ہے۔‘‘
جس وقت شہباز گرمانی کے گھر پر فائرنگ کی گئی وہ اپنی رہائشگاہ پر موجود نہیں تھے۔ واضح رہے کہ توہین رسالت کے ملزم جنید حفیظ کے مقدمے میں شہباز گرمانی سے قبل معروف شخصیت راشد رحمان وکیل تھے اور اُنھیں بھی ایسی ہی دھمکیاں دی گئی تھیں۔
انھی دھمکیوں کے بعد راشد رحمان کو رواں سال مئی میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
شہباز گرمانی کے بقول جب کوئی اور وکیل جنید حفیظ کے دفاع کے لیے تیار نہیں تھا تو اُنھوں نے اس مقدمے میں ملزم کی طرف سے پیش ہونے کا فیصلہ کیا۔
پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور شہباز گرمانی کو سکیورٹی بھی فراہم کی گئی ہے۔
واضح ہے کہ حال ہی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں شدت پسند تنظیم ’دولت اسلامیہ‘ کے حق میں دیواروں پر تحریریں دیکھی گئیں جس کے بعد پولیس نے مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی بھی کی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو بتایا تھا کہ دولت اسلامیہ کے حق میں ایسی تحریروں میں ملوث کچھ افراد کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔
تسنیم اسلم نے کہا کہ تحقیقات جاری ہیں اور اس بات کی تفتیش کی جا رہی ہے کہ مشتبہ لوگ دھوکا دے رہے تھے یا اُن کا تعلق حقیقت میں دولت اسلامیہ سے ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بعض اوقات ایسے عناصر ہوتے ہیں جو صرف خوف پھیلانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ گرفتار کیے گئے مشتبہ افراد میں کوئی بھی غیر ملکی نہیں ہے۔ پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ ملک میں ’دولت اسلامیہ‘ کا کوئی وجود نہیں۔