پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے جزوی نجکاری کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس مجوزہ قدم کے اصل محرکات کو پوشیدہ رکھا جا رہا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے نواز شریف حکومت کی طرف سے قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کی جزوی نجکاری کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس مجوزہ قدم کے اصل محرکات کو پوشیدہ رکھا جا رہا ہے۔
قانون سازوں نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے میں ’’غیر شفافیت‘‘ اور اس کے اصل محرکات کے بارے میں ابہام کی وجہ سے تاثر ملتا ہے کہ حکومت یہ عمل ان کے بقول کسی مخصوص کمپنی یا لوگوں کو نوازنے یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کر رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر زرعی اور ڈیری مصنوعات کی ایک بڑی پاکستانی کمپنی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ پی آئی اے کا 36 ارب روپے کا سالانہ خسارہ حکومت ادارے میں بہتر انتظامیہ اور کچھ اصلاحات سے کافی حد تک کنٹرول کر سکتی ہے۔
’’آپ 30 ارب کی چوری ختم کردو خسارہ کم ہوجائے گا، پھر بیچوں۔ یہ کوئی منطق نہیں کہ آپ 36 ارب خسارے والی چیز بیچ دیں جب کہ اس میں سے 90 فیصد ابھی پیدا کردہ چوری کی وجہ سے ہوا ہے اور آپ کچھ ماہ میں اسے ختم کرسکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے سمیت خسارے کا سامنے والے کرنے والے دیگر قومی اداروں کی نجکاری سے پاکستان پر 1,400 ارب روپے کے قرضوں میں کوئی خاطر خواہ کمی ممکن نہیں۔
’’اگر آپ کہتے ہیں کہ اوور اسٹافنگ کی وجہ سے ہم نجکاری کر رہے ہیں تو پارلیمنٹ کے فلور پر کہیں کہ ہم نجی شعبے کے ذریعے 20 ہزار لوگوں کو بے روزگار کرنے جارہے ہیں۔ دوسری وجہ اگر کرپشن ہے تو آپ کی حکومت ہے، اس کو ختم کریں۔ پہلے محرکات تو بیان کیے جائیں۔‘‘
حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ چند قومی اداروں کی مسلسل ناقص اور غیر فعال کارکردگی کی وجہ سے حکومتی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، جس کے پیش نظر وزیر اعظم نواز شریف نے حال ہی میں قومی فضائی کمپنی کے کچھ حصص نجی شعبے میں فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔
پی آئی اے کے حکام کے مطابق وقتاً فاوقتاً جہازوں اور ان کے پرزوں کی خریداری کی مد میں قومی فضائی کمپنی پر مجموعی طور پر تقریباً 200 ارب روپے کا قرضہ ہے۔
وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کا کہنا ہے کہ نجکاری کے منصوبے کی منظوری کے ابھی کافی مراحل باقی ہیں تاہم ان کے بقول 26 فیصد حصص کی فروخت کے مجوزہ عمل کے بعد قومی ادارے سے کسی ملازم کو نکالا نہیں جائے گا۔
’’تین آپشن تھے حکومت چلائے، پوری نجکاری کی جائے یا کچھ حصص فروخت کیے جائیں۔ تو تیسرا آپشن لیا گیا۔ لیکن اس میں سروس بیچی جا رہی ہیں یعنی کوئی کنٹریکٹر کو کہا جائے گا کہ مختلف سروسز دے۔‘‘
پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ ادوار کی طرح نواز شریف حکومت کی موجودہ نجکاری پالیسی بھی ’’ملازمین دشمن نجکاری‘‘ ہو سکتی ہے۔
’’پی آئی الے کے روٹس بیچے جا رہے ہیں۔ پی آئی اے کو کھو کھلا کیا جا رہا ہے۔ اداروں کو بیل آؤٹ کرنی کی ضرورت پڑ جاتی ہے امریکہ نے بھی اپنے بنکوں کو کیا تھا۔ تو پہلے پی آئی اے کو بیل آؤٹ کریں پھر کچھ اور سوچیں‘‘
پی آئی اے کے عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ حکومت کی جانب سے ادارے کے قرضے کی ادائیگی سے قومی ادارے کے معاملات بہت حد تک درست ہو سکتے ہیں۔
بین القوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان پر زور ڈالتے آئے ہیں کہ وہ خسارے کا سامنا کرنے والے قومی اداروں کی نجکاری کرکے قومی خزانے پر سے بوج کم کرے۔
قانون سازوں نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے میں ’’غیر شفافیت‘‘ اور اس کے اصل محرکات کے بارے میں ابہام کی وجہ سے تاثر ملتا ہے کہ حکومت یہ عمل ان کے بقول کسی مخصوص کمپنی یا لوگوں کو نوازنے یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کر رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر زرعی اور ڈیری مصنوعات کی ایک بڑی پاکستانی کمپنی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ پی آئی اے کا 36 ارب روپے کا سالانہ خسارہ حکومت ادارے میں بہتر انتظامیہ اور کچھ اصلاحات سے کافی حد تک کنٹرول کر سکتی ہے۔
’’آپ 30 ارب کی چوری ختم کردو خسارہ کم ہوجائے گا، پھر بیچوں۔ یہ کوئی منطق نہیں کہ آپ 36 ارب خسارے والی چیز بیچ دیں جب کہ اس میں سے 90 فیصد ابھی پیدا کردہ چوری کی وجہ سے ہوا ہے اور آپ کچھ ماہ میں اسے ختم کرسکتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے سمیت خسارے کا سامنے والے کرنے والے دیگر قومی اداروں کی نجکاری سے پاکستان پر 1,400 ارب روپے کے قرضوں میں کوئی خاطر خواہ کمی ممکن نہیں۔
’’اگر آپ کہتے ہیں کہ اوور اسٹافنگ کی وجہ سے ہم نجکاری کر رہے ہیں تو پارلیمنٹ کے فلور پر کہیں کہ ہم نجی شعبے کے ذریعے 20 ہزار لوگوں کو بے روزگار کرنے جارہے ہیں۔ دوسری وجہ اگر کرپشن ہے تو آپ کی حکومت ہے، اس کو ختم کریں۔ پہلے محرکات تو بیان کیے جائیں۔‘‘
حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ چند قومی اداروں کی مسلسل ناقص اور غیر فعال کارکردگی کی وجہ سے حکومتی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے، جس کے پیش نظر وزیر اعظم نواز شریف نے حال ہی میں قومی فضائی کمپنی کے کچھ حصص نجی شعبے میں فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔
پی آئی اے کے حکام کے مطابق وقتاً فاوقتاً جہازوں اور ان کے پرزوں کی خریداری کی مد میں قومی فضائی کمپنی پر مجموعی طور پر تقریباً 200 ارب روپے کا قرضہ ہے۔
وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور کا کہنا ہے کہ نجکاری کے منصوبے کی منظوری کے ابھی کافی مراحل باقی ہیں تاہم ان کے بقول 26 فیصد حصص کی فروخت کے مجوزہ عمل کے بعد قومی ادارے سے کسی ملازم کو نکالا نہیں جائے گا۔
’’تین آپشن تھے حکومت چلائے، پوری نجکاری کی جائے یا کچھ حصص فروخت کیے جائیں۔ تو تیسرا آپشن لیا گیا۔ لیکن اس میں سروس بیچی جا رہی ہیں یعنی کوئی کنٹریکٹر کو کہا جائے گا کہ مختلف سروسز دے۔‘‘
پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ ادوار کی طرح نواز شریف حکومت کی موجودہ نجکاری پالیسی بھی ’’ملازمین دشمن نجکاری‘‘ ہو سکتی ہے۔
’’پی آئی الے کے روٹس بیچے جا رہے ہیں۔ پی آئی اے کو کھو کھلا کیا جا رہا ہے۔ اداروں کو بیل آؤٹ کرنی کی ضرورت پڑ جاتی ہے امریکہ نے بھی اپنے بنکوں کو کیا تھا۔ تو پہلے پی آئی اے کو بیل آؤٹ کریں پھر کچھ اور سوچیں‘‘
پی آئی اے کے عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ حکومت کی جانب سے ادارے کے قرضے کی ادائیگی سے قومی ادارے کے معاملات بہت حد تک درست ہو سکتے ہیں۔
بین القوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان پر زور ڈالتے آئے ہیں کہ وہ خسارے کا سامنا کرنے والے قومی اداروں کی نجکاری کرکے قومی خزانے پر سے بوج کم کرے۔