فوج اور طالبان مذاکرات کے حقیقی فریق ہیں: پروفیسر ابراہیم

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ حکومت قبائلی عوام کو آئین میں درج حقوق فراہم کرے تو وہ یقین دلاتے ہیں طالبان بھی پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں گے۔
پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان کے حکومت سے مذاکرات کے لیے رابطہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کو فائر بندی کرنی چاہیئے اور فوج کی جانب سے بھی مثبت جواب کی صورت میں ہی بات چیت عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔

خیبرپختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور میں جمعرات کو ایک بڑے قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے رابطہ کار پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ مذاکراتی عمل میں فوج اور طالبان اصل فریق ہیں اور ان دونوں کو بھی بات چیت کے لیے ایک ساتھ بیٹھنا چاہیئے۔

’’پاک فوج نے پہلے بھی طالبان سے معاہدے کیے ہیں۔۔۔۔ 12 معاہدے پہلے بھی (فوج) نے کیے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ تنازع کسی فوجی آپریشن سے حل نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے بات چیت کا راستہ ہی سود مند ثابت ہو گا۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ حکومت قبائلی عوام کو آئین میں درج حقوق فراہم کرے تو وہ یقین دلاتے ہیں طالبان بھی پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں گے۔

طالبان کے رابطہ کار کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل ہی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا تھا کہ تمام لوگوں کو ریاست کا آئین تسلیم کرنا چاہیئے اور اس سے بغاوت کرنے والوں کے فوج پوری طرح نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

حکومت نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور طالبان شوریٰ کے درمیان صرف ایک ہی براہ راست ملاقات کے بعد یہ عمل تاحال تعطل کا شکار ہے۔

طالبان نے چالیس روز تک فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس کی معیاد گزشتہ ماہ ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد سے خیبر پختونخواہ اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں تشدد کے مختلف واقعات میں پولیس اہلکاروں سمیت ایک درجن کے قریب لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔

رواں ہفتے ہی سکیورٹی فورسز نے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بھی بنایا۔